کیا کیا تھے اور کیا کیا ہو
کیا کیا تھے اور کیا کیا ہو
تم بھی ایک تماشہ ہو
بعد فنا جو زندہ ہو
پیر کے آگے مردا ہو
نفس اسی کا سیدھا ہو
ہاتھ میں جس کے جوتا ہو
بندے ہو یا مولا ہو
میرے رب ہو مرزا ہو
آپ حسین و زیبا ہو
یار مگر بے پروا ہو
دریا سمٹے قطرہ ہو
قطرہ پھیلے دریا ہو
غور سے دیکھو بینا ہو
میں کیا ہوں اور تم کیا ہو
بازئی عشق نہیں مہمل
جھوٹا کھیلے سچا ہو
میری تو پھوٹیں آنکھیں
گر کوئی تم سا دیکھا ہو
جو نہ یہاں دیکھے تم کو
محشر میں بھی اندھا ہو
ہم نے دونوں کو چھوڑا
عقبیٰ ہو یا دنیا ہو
نفس تجھے میں کیا کوسوں
جا تیرا منہ کالا ہو
وہی خدا کو پاتا ہے
خود کو جس نے کھویا ہو
آنکھوں میں ایسا وہ سمائے
جس کو دیکھو دھوکہ ہو
نفس کو کیجیے جتنا راست
مثل سگ دم ٹیڑھا ہو
قید سے جو آزاد ہوا
تیرا ہو نہ میرا ہو
عاشق اوس کو کہتے ہیں
اپنی دھن کا پکا ہو
عریانی میں لوث کہاں
دامن ہو تو دھبہ ہو
الجھو تم جتنا سلجھائیں
آپ بھی گورکھ دھندا ہو
آدم کا کیا بگڑے ہے
نقشہ بگڑے خاکہ ہو
انساں ہے گو مشت خاک
ہراہل صحرا میں عنقا ہو
اپنے محمد سے کم ہے
عیسیٰ ہو یا موسیٰ ہو
جس کو کہہ دیں آپ برا
بروں میں وہ بھی اچھا ہو
عشق میں ناصح بھی ہے دوست
کرے نصیحت دونا ہو
جس کا نفس بنے کاہل
اوس کی دال میں کالا ہو
کچھ بھی نہیں گر ہو علویؔ
سب کچھ ہو گر مرزا ہو
- کتاب : سرودِ روحانی (Pg. 325)
- اشاعت : Second
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.