مستی نواز شوخی انداز کافرانہ
مستی نواز شوخی انداز کافرانہ
زلفیں سیہ گھٹائیں آنکھیں شراب خانہ
اب اس سے چاہتا ہے پھر اور کیا زمانہ
جس نے لٹا دیا ہے امید کا خزانہ
پوچھو نہ ہم نشینو مجھ سے مرا فسانہ
جلتا رہا نشیمن دیکھا کیسا زمانہ
کس دھن میں گا رہی ہے او زندگی ترانہ
آواز دے رہا ہے گزرا ہوا زمانہ
ساقی تری نظر کا اللہ رے فسانہ
ساغر میں آگیا ہے کھنچ کر شراب خانہ
نقش قدم پہ ساری دنیا جھکی ہوئی ہے
ظالم تری خدائی کافر ترا زمانہ
آ اے نگار فطرت روح و روان الفت
سونا پڑا ہوا ہے دل کا نگار خانہ
اک تربت شکستہ نظروں کے سامنے ہے
وہ یاد کر رہے ہیں بھولا ہوا فسانہ
سجدوں کا واسطہ بھی حائل نہیں رہا ہے
اب میں ہوں اور تم ہو سر ہے نہ آستانہ
اب آندھیوں کے جھونکے اس کو اڑا رہے ہیں
پھولوں میں تل رہا تھا کل تک جو آشیانہ
چھٹتے ہی پھر قفس سے لایا گیا قفس میں
مجھ کو نہ راس آیا گلشن کا آب و دانا
اللہ رے چمن کا زینت طراز منظر
شاخوں کی ڈوریاں ہیں پھولوں کا شامیانہ
اک دل بھی آج قایم اپنی جگہ نہیں ہے
ممکن ہے چوک جائے قاتل ترا نشانہ
مل جائے مجھ کو ماہر اے کاش زندگی میں
اک جذب والہانہ اک سوز عارفانہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.