اگر فطرت کا ہر انداز بے باکانہ ہو جائے
اگر فطرت کا ہر انداز بے باکانہ ہو جائے
ہجوم رنگ و بو سے آدمی دیوانہ ہو جائے
کرم کیسا ستم سے بھی نہ وہ بیگانہ ہو جائے
میں ڈرتا ہوں محبت میں کہیں ایسا نہ ہو جائے
اپنے اس انجمن میں بار پا کر اب یہ خدشہ ہے
مرا انداز بیتابی نہ گستاخانہ ہو جائے
نگاہ مست ساقی اک طلسم رنگ و مستی ہے
کہیں پیمانہ بن جائے کہیں مے خانہ ہو جائے
سمجھ کر ہوش سے بیگانہ ہونا بھی ہے نادانی
وہ عاقل ہے جو بے سمجھے ہوئے دیوانہ ہو جائے
یہاں بھی کچھ نگاہیں تشنۂ دیدار ہیں ساقی
ادھر بھی ایک دور نرگس مستانہ ہو جائے
میں کہتا ہوں نہ تم پیغام بھیجو اپنے آنے کا
اسی دھوکے میں بیمار الم اچھا نہ ہو جائے
میں اس محفل کی تہمت کس طرح آخر اٹھاؤں گا
خموشی بھی جہاں افسانہ در افسانہ ہو جائے
نقاب الٹے ہوئے اک روز گر وہ خود چلے آئیں
سیہ خانہ مرا ماہرؔ تجلی خانہ ہو جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.