خاک کے کچھ منتشر ذروں کو انساں کر دیا
خاک کے کچھ منتشر ذروں کو انساں کر دیا
اس نے جس جلوے کو جب چاہا نمایاں کر دیا
اس نے ہنس کر خود ہی زلفوں کو پریشاں کر دیا
میں یہ سمجھا میں نے قاتل کو پشیماں کر دیا
موسم گل میں یہ کیا اے یاد جاناں کر دیا
میرے چاک دل کو پھولوں کا گریباں کر دیا
ناامیدی کے چراغوں کو فروزاں کر دیا
اس نے دل کی آخری مشکل کو آساں کر دیا
خاک کے پردے میں انساں بن کے ظاہر ہو گئی
وہ تجلی جس نے آئینوں کو حیراں کر دیا
رخ پہ زلفیں چھوڑ کر وہ مسکرائے اس طرح
کفر تو پھر کفر ہے ایماں کو ایماں کر دیا
آہ نکلی تھی کہ دل کی آڑ سے آئی صدا
تو نے پھر ناداں شکست عہد و پیماں کر دیا
اک پیام عشق ہے ماہرؔ مری فکر سخن
شعر کے پردے میں درد دل نمایاں کر دیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.