مے وہ مے جو نہیں ملتی کسی مے خانے میں
مے وہ مے جو نہیں ملتی کسی مے خانے میں
ڈال دے ڈال دے ساقی مرے پیمانے میں
جان جاں تو ہے کہاں کون سے کاشانے میں
کعبہ میں جائیں کلیسا میں کہ بت خانے میں
آمد آمد ہے یہ کس رند کی مے خانے میں
مے پرجوش سماتی نہیں پیمانے میں
قصہ گو یہ تو بتا کیسے سنایا ان کو
کس کا افسانہ ملایا میرے افسانے میں
گردش چشم نے ساقی کی کیا تھا مدہوش
جھک گئی بزم کی بزم ایک ہی پیمانے میں
اور ایک تھوڑی سی ساقی میرے ساقی دے دے
ابھی گنجائش میخانہ ہے پیمانے میں
دین و دنیا سے تعلق نہیں باقی ساقی
جب سے بیٹھے ہیں ہم آکر ترے مے خانے میں
مدھ بھری آنکھوں میں جو تونے چھپا رکھی ہے
ساقیا تھوڑی سی وہ بھی میرے پیمانے میں
جل گیا خاک ہوا خاک بھی پامال ہوئی
پھر بھی ہے روح محبت وہی پروانے میں
ترک میخانہ کو مدت ہوئی لیکن اب تک
دل ہے شیشہ میں مرا آنکھ ہے پیمانے میں
لو ادھر کانپی ادھر ذرہ ہر اک کانپ اٹھا
خاک ہو کر بھی یہ احساس ہے پروانے میں
گردش جام سے ظاہر ہے ہماری گردش
دل حفیظؔ اپنا ہے ساغر نہیں مے خانے میں
- کتاب : تذکرہ شعرائے اتر پردیش جلد دسویں (Pg. 119)
- Author : عرفان عباسی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.