میرے مہ جبیں نے بصد ادا جو نقاب رخ سے اٹھا دیا
میرے مہ جبیں نے بصد ادا جو نقاب رخ سے اٹھا دیا
جو سنا نہ تھا کبھی ہوش میں وہ تماشا مجھ کو دکھا دیا
ملا شب جو خواب میں وہ حسیں یہ کہا تھا نکلے گی حسرتیں
یہ جفا یہ باد سحر نے کی چلی یوں کہ مجھ کو جگا دیا
میں اگرچہ خاک میں مل چکا مگر ان کے دل میں غبار تھا
کہ نشان قبر بھی ڈھونڈھ کر میرے سنگ دل نے مٹا دیا
چھٹے قید دیر و حرم سے ہم ہوئے خواب وہ جو خیال تھے
مجھے ساقیا مے بے خودی کا وہ جام تو نے پلا دیا
تجھے دیکھ او بت خوش ادا پھری آنکھ ساری خدائی سے
وہ جو یاد رہتی تھی صورتیں انہیں صاف دل سے بھلا دیا
میں وہ مرغ خانہ خراب ہوں کہ چمن قفس کا ہے ذکر کیا
لیا گر حسینوں نے مول بھی مجھے صدقہ کر کے اڑا دیا
میرا گرچہ اوگھٹؔ نام ہے پر کرم ہے وارثؔ پاک کا
زہے شان دم میں غنی کیا کہ گدا سے شاہ بنا دیا
- کتاب : فیضان وارثی المعروف زمزمۂ قوالی (Pg. 11)
- Author : اوگھٹ شاہ وارثی
- مطبع : جید برقی پریس، دہلی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.