سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل
دلچسپ معلومات
محسنؔ کاکوروی کا یہ نعتیہ قصیدہ ہندوستان کی اکثر یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہے۔
سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جل
گھر میں اشنان کریں سرو قدان گوکل
جا کے جمنا پہ نہانا بھی ہے اک طول عمل
خبر اڑتی ہوئی آئی ہے مہابن میں ابھی
کہ چلے آتے ہیں تھیرتھ کو ہوا پر بادل
تہ و بالا کیے دیتے ہیں ہوا کے جھونکے
بیڑے بھادوں کے نکلتے ہیں بھرے گنگا جل
کبھی ڈوبی کبھی اچھلی مہ نو کی کشتی
بحر اخضر میں تلاطم سے پڑی ہے ہلچل
شب دیجور اندھیرے میں ہے بادل کے نہاں
لیلیٰ محمل میں ہے ڈالے ہوئے منہ پر آنچل
آتش گل کا دھواں بام فلک پر پہنچا
جم گیا منزل خورشید کی چھت میں کاجل
جس طرف سے گئی بجلی پھر ادھر آ نہ سکی
قلعۂ چرخ میں ہے بھول بھلیاں بادل
آئینہ آب تموج سے بہا جاتا ہے
کہیے تصویر سے گرنا نہ کہیں دیکھ سنبھل
آج یہ نشو و نما کا ہے ستارہ چمکا
شاخ میں کاہکشاں کہ نکل آئی کوپل
خضر فرماتے ہیں سنبل سے تری عمر دراز
پھول سے کہتے ہیں پھلتا رہے گلزار امل
دیکھتے دیکھتے بڑھ جاتی ہے گلشن کی بہار
دیدۂ نرگس شہلا کو نہ سمجھو احول
لہریں لیتا ہے جو بجلی کے مقابل سبزہ
چرخ پر بادلا پھیلا ہے زمیں پر مخمل
ہمزباں وصف چمن میں ہوئے سب اہل چمن
طوطیوں کی ہے جو تضمین تو بلبل کی غزل
جگنو پھرتے ہیں جو گلبن میں تو آتی ہے نظر
مصحف گل کے حواشی پہ طلائی جدول
شاخ پر پھول ہیں جنبش میں زمیں پر سنبل
سب ہوا کھاتے ہیں گلشن میں سوار و پیدل
آہ قمری میں مزا اور مزے میں تاثیر
سرو میں دیکھیے پھول آنے لگے پھول میں پھل
خندہ ہائے گل قالیں سے ہوا شور نشور
کیا عجب ہے جو پریشان ہے خواب مخمل
شاخ شمشاد پہ قمری سے کہو چھیڑے ملار
نونہالان گلستاں کو سنائے یہ غزل
طرفہ گردش میں گرفتار عجب پھیر میں ہے
سرمہ ہے نیند مری دیدۂ بے دار کھرل
سمت کاشی سے گیا جانب متھرا بادل
تیرتا ہے کبھی گنگا کبھی جمنا بادل
سمت کاشی سے گیا جانب متھرا بادل
برج میں آج سر کشن ہے کالا بادل
شاہد گل کا لیے ساتھ ہے ڈولا بادل
برق کہتی ہے مبارک تجھے سہرا بادل
خوب چھایا ہے سر گوکل و متھرا بادل
رنگ میں آج کنہیا کے ہے ڈوبا بادل
سطح افلاک نظر آتی ہے گنگا جمنی
روپ بجلی کا سنہرا ہے روپہلا بادل
چرخ پر بجلی کی چل پھر سے نظر آتا ہے
سبزہ چمکائے ہلاتا ہوا برچھا بادل
بجلی دو چار قدم چل کے پلٹ جائے نہ کیوں
وہ اندھیرا ہے کہ پھرتا ہے بھٹکتا بادل
جب تلک برج میں جمنا ہے یہ کھلنے کا نہیں
ہے قسم کھائے اٹھائے ہوئے گنگا بادل
چشمۂ مہر ہے عکس زر گل سے دریا
پرتو برق سے ہے سونے کا بجرا بادل
مری آنکھوں میں سماتا نہیں یہ جوش و خروش
کسی بے درد کو دکھلا یہ کرشمہ بادل
تپش دل کا اڑایا ہوا نقشہ بجلی
چشم پر آب کا دھویا ہوا خاکہ بادل
دل بے تاب کی ادنیٰٰ سی چمک ہے بجلی
چشم پر آب کا ہے ایک کرشمہ بادل
اپنی کم ظرفیوں سے لاکھ فلک پر چڑھ جائے
میری آنکھوں کا ہے اترا ہوا صدقہ بادل
کچھ ہنسی کھیل نہیں جوشش گریہ کا ضبط
یہ مرا دل ہے یہ میرا ہے کلیجا بادل
راجہ اندر ہے پری خانہ مے کا پانی
نغمہ مے کا سر کشن کنہیا بادل
دیکھتا گر کہیں محسنؔ کی فغان و زاری
نہ گرجتا کبھی ایسا نہ برستا بادل
پھر چلا خامہ قصیدہ کی طرف بعد غزل
کہ ہے چکر میں سخن گو کا دماغ مختل
مئے گل رنگ ہے کیا شمع شب فکر کا پھول
چلتے چلتے جو قلم ہاتھ سے جاتا ہے نکل
ہے سخن گو کو نہ انشا کی نہ املا کی خبر
ہو گئی نظم کی انشا کی خبر سب مہمل
دل میں کچھ اور ہے پر منہ سے نکلتا ہے کچھ اور
لفظ بے معنی ہیں اور معنی ہیں سب بے اٹکل
کتنا بے قید ہوا کتنا یہ آوارہ پھرا
کوئی مندر نہ بچا اس سے نہ کوئی استل
کبھی گنگا پہ بھٹکتا ہے کبھی جمنا پر
گھاگھرا پر کبھی گزرا کبھی سوئے چمل
چھینٹے دینے سے نہ محفوظ رہی قلزم و نیل
نہ بچا خاک اڑانے سے کوئی دشت و جبل
ہاں یہ سچ ہے کہ طبیعت نے اڑایا جو غبار
ہوئی آئینہ مضموں کی دو چنداں صیقل
اک ذرا دیکھیے کیفیت معراج سخن
ہاتھ میں جام زحل شیشۂ مہ زیر بغل
گرتے پڑتے کہاں مستانہ کہاں رکھا پاؤں
کہ تصور بھی جہاں جا نہ سکے فرق کے بل
یعنی اس نور کے میدان میں پہنچا کہ جہاں
خرمن برق تجلٰی کا لقب ہے بادل
تار باران مسلسل ہے ملائک کا درود
بہر تسبیح خداوند جہاں عز و جل
کہیں طوبیٰ کہیں کوثر کہیں فردوس بریں
کہیں بہتی ہوئی نہر لبن و نہر عسل
کہیں جبریل حکومت پہ کہیں اسرافیل
کہیں رضواں کا کہیں ساقیٔ کوثر کا عمل
کنز مخفی کے کسی سمت نہاں تہ خانے
اک طرف مظہر قدرت کے عیاں شیش محل
عاشق جلوہ طلب گار کہیں چشم قبول
ناز محبوب کے پردے میں کہیں حسن عمل
گل بیرنگی مطلق سے لہکتے گلزار
بے نیازی کے ریاحیں سے مہکتے جنگل
باغ تنزیہ میں سرسبز نہال تشبیہ
انبیا جس کی ہیں شاخیں عرفا ہیں کوپل
گل خوش رنگ رسول مدنی عربی
زیب دامان ابد طرۂ دستار ازل
نہ کوئی اس کا مشابہ ہے نہ ہمسر نہ نظیر
نہ کوئی اس کا مماثل نہ مقابل نہ بدل
اوج رفعت کا قمر نخل دو عالم کا ثمر
بحر وحدت کا گہر چشمۂ کژت کا کنول
مہر توحید کی ضو اوج شرف کا مہ نو
شمع ایجاد کی لو بزم رسالت کا کنول
مرجع روح امیں زیب دہ عرش بریں
حامیٔ دین متیں ناسخ ادیان و ملل
ہفت اقلیم ولایت میں شہ عالی جاہ
چار اطراف ہدایت میں نبی مرسل
جی میں آتا ہے لکھوں مطلع برجستہ اگر
وجد میں آ کے قلم ہاتھ سے جائے نہ اچھل
منتخب نسخہ وحدت کا یہ تھا روز ازل
کہ نہ احمد کا ہے ثانی نہ احد کا اول
دور خورشید کی بھی حشر میں ہو جائے گی صبح
تا ابد دور محمد کا ہے روز اول
شب اسریٰ میں تجلی سے روئے انور کی
پڑ گئی گردن رفرف میں سنہری ہیکل
سجدۂ شکر میں ہے ناصیہ عرش بریں
خاک سے پائے مقدس کی لگا کر صندل
افضلیت پہ تری مشتمل آثار و کتب
اولیت پہ تری متفق ادیان و ملل
لطف سے تیرے ہوئی شوکت ایماں محکم
قہر سے سلطنت کفر ہوئی مستاصل
جس طرف ہاتھ بڑھیں کفر کے چھٹ جائیں قدم
جس جگہ پاؤں رکھیں سجدہ کریں لات و ہبل
ہو سکا ہے کہیں محبوب خدا غیر خدا
اک ذرا دیکھ سمجھ کر مری چشم احول
رفع ہونے کا نہ تھا وحدت و کثرت کا خلاف
میم احمد نے کیا آ کے یہ قصہ فیصل
نظر آئے مجھے احمد میں اگر دال دوئی
روز محشر ہوں الٰہی میری آنکھیں احول
پھر اسی طرز کی مشتاق ہے مواجی طبع
کہ ہے اس بحر میں اک قافیہ اچھا بادل
کیا جھکا کعبے کی جانب کو ہے قبلہ بادل
سجدے کرتا ہے سوئے طیبہ و بطحا بادل
چھوڑ کر بت کدہ ہند و صنم خانۂ برج
آج کعبہ میں بچھائے ہے مصلیٰ بادل
سبزۂ چرخ کو اندھیاری لگا کر لایا
شہسوار عربی کے لیے کالا بادل
بحر امکاں میں رسول عربی در یتیم
رحمت خاص خداوند تعالٰی بادل
قبلۂ اہل نظر کعبہ ابروئے حضور
موئے سر قبلے کو گھیرے ہوئے کالا بادل
رشک سے شعلۂ رخسار کے روتی ہے برق
برق کے منہ پہ رکھے ہوئے پلا بادل
دور پہنچی لب جاں بخش نبی کی شہرت
سن ذرا کہتے ہیں کیا حضرت عیسائی بادل
چشم انصاف سے دیکھ آپ کے دندان شریف
در یکتا ہے تیرا گرچہ یگانہ بادل
تھا بندھا تار فرشتوں کا در اقدس پر
شب معراج میں تھا عرش معلیٰ بادل
آمد و رفت میں تھا ہم قدم برق براق
مرغزار چمن عالم بالا بادل
ہفت اقلیم میں اس دیں کا بجا ہے ڈنکا
تھا تری عام رسالت کا گرجتا بادل
آستانے کا ترے دہر میں وہ رتبہ ہے
کہ جو نکلا تو جھکائے ہوئے کاندھا بادل
تو وہ فیاض ہے در پر ترے سائل کی طرح
فلک پیر کو لایا دیے کاندھا بادل
تیغ میدان شجاعت میں چمکتی بجلی
ہاتھ گلزار سخاوت میں برستا بادل
محسنؔ اب کیجیے گلزار مناجات کی سیر
کہ اجابت کا چلا آتا ہے گہیرا بادل
سب سے اعلیٰ تری سرکار ہے سب سے افضل
میرے ایمان مفصل کا یہی ہے مجمل
ہے تمنا کہ رہے نعت سے تیری خالی
نہ مرا شعر نہ قطعہ نہ قصیدہ نہ غزل
دین و دنیا میں کسی کا نہ سہارا ہو مجھے
صرف تیرا ہی بھروسہ تری قوت ترا بل
ہو مرا ریشہ امید وہ نخل سر سبز
جس کی ہر شاخ میں ہو پھول ہر اک پھول میں پھل
آرزو ہے کہ ترا دھیان رہے تا دم مرگ
شکل تیری نظر آئے مجھے جب آئے اجل
روح سے میری کہیں پیار سے یوں عزرائیل
کہ مری جان مدینے کو جو چلتی ہے تو چل
دم مردن یہ اشارہ ہو شفاعت کا تری
فکر فردا تو نہ کر دیکھ لیا جائے گا کل
یاد آئینہ رخسار سے حیرت ہو مجھے
گوشۂ قبر نظر آئے مجھے شیش محل
میزباں بن کے نکیرین کہیں گھر ہے ترا
نہ اٹھانا کوئی تکلیف نہ ہونا بیکل
رخ انور کا ترے دھیان رہے بعد فنا
میرے ہمراہ چلے راہ عدم میں مشعل
حذف ہوں میرے گناہان ثقیل اور خفیف
آئیں میزاں میں جب افعال صحیح و معتل
میری شامت سے ہو آراستہ گیسوئے سیاہ
عارض شاہد محشر ہو اگر حسن عمل
صف محشر میں ترے ساتھ ہو تیرا مداح
ہاتھ میں ہو یہی مستانہ قصیدہ یہ غزل
کہیں جبریل اشارے سے کہ ہاں بسم اللہ
سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.