نہ شوق وصل کا موقع نہ ذوق آشنائی کا
نہ شوق وصل کا موقع نہ ذوق آشنائی کا
میں اک ناچیز بندہ اور اسے دعوی خدائی کا
پڑا صد شکر جو داغ اپنے سینے میں جدائی کا
ستارہ بن گیا آخر وہ صبح آشنائی کا
درازی دھیان میں آتی ہے کب روز قیامت کی
کہ اک پیوند ہے پیراہن روز جدائی کا
بنے جو موج اپنے بحر خوں میں حلقہ اے قاتل
الٰہی ہو وہ چھلا تیری انگشت حنائی کا
نوید وصل عاشق کے لئے ہے صدمۂ فرقت
ابھرنا بیٹھ جانا ہے محیط آشنائی کا
جلاتا کیوں ہے اے دل مجھ کو شوق وصل بھڑکا کر
ارے اس آگ سے تو پھونک دے پردہ جدائی کا
الٰہی کون سے مجرم کی آمد ہے قیامت میں
ہوا ہے حکم رحمت کو یہ کس کی پیشوائی کا
ہدف دل کو بناتے ہیں جو کچھ کہئے تو کہتے ہیں
سکھاتے ہیں چلن تیروں کو اپنے دل ربائی کا
پہنچ کر یار تک بے خود ہوئے پہنچے نہ مطلب کو
رسائی نے دیا کیا داغ ہم کو نارسائی کا
قدم تیرا جہاں پڑتا ہے بو مہندی کی آتی ہے
ترے نقش قدم میں رنگ ہے پائے حنائی کا
شب وصلت نزاکت ان کی شوق وصل سے بولی
ترس کھا مجھ پہ ظالم وقت ہے بے دست و پائی کا
وفا منظور اس کو بھی نہیں ہے اس کی فرقت میں
سبق پڑھنے چلی ہے عمر اس سے بے وفائی کا
تمہیں تم آئینہ خانے میں ہو چاروں طرف دیکھو
کہو جی اب بھی کچھ ارمان نکلا خود نمائی کا
پلٹ کر سیکڑوں کالی بلائیں بوسے لیتی ہیں
انہیں باتوں سے منہ کالا ہے شب ہائے جدائی کا
سر اس کے پاؤں پر رکھیے بنائے ہیں یہ بت جس نے
مزہ ہے خاک پتھر پائے بت پر جبہہ سائی کا
بہت ہی بھر گیا ہے عمر کا پیمانہ اب چھلکا
چراغ اک جھلملاتا سا ہے بزم آشنائی کا
قفس میں ہوں مگر سارا چمن آنکھوں کے آگے ہے
رہائی کے برابر اب تصور سے رہائی کا
نہیں ممکن ہے سونا ہجر میں نیند آ نہیں سکتی
طلا یہ پھر رہا ہے آنکھ میں طوق طلائی کا
امیرؔ خستہ جاں آفت میں ہے یا حیدر صفدر
کرو امداد اس کی وقت ہے مشکل کشائی کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.