Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

ناوک ناز سے مشکل ہے بچانا دل کا

امیر مینائی

ناوک ناز سے مشکل ہے بچانا دل کا

امیر مینائی

MORE BYامیر مینائی

    ناوک ناز سے مشکل ہے بچانا دل کا

    درد اٹھ اٹھ کے بتاتا ہے ٹھکانا دل کا

    لوٹ جاتے تھے حسیں دیکھ کے آنا دل کا

    کیا موافق تھا جوانی میں زمانہ دل کا

    کہتے ہیں کیا میں کروں سن کے فسانا دل کا

    وہی جھگڑا وہی دکھڑا ہے پرانا دل کا

    آفریں کہنے سے رک جاتا ہے قاتل میرا

    لذت قتل گھٹاتا ہے بڑھانا دل کا

    اس نے دیکھا اسے اور اس نے اسے دیکھ لیا

    اب تو دشوار ہے پہلو میں چھپانا دل کا

    آج اس شوق سے پیکاں مرے دل میں آیا

    آ گیا یاد کسی شوخ پر آنا دل کا

    ہائے وہ پہلی ملاقات میں میرا رکنا

    اور اس کا وہ لگاوٹ سے بڑھانا دل کا

    عشق میں صبر کہاں ضبط کہاں تاب کہاں

    جان جانا نہیں ہمدم یہ ہے جلنا دل کا

    نچلے بیٹھے رہو قدموں پہ پڑا رہنے دو

    دیکھو اچھا نہیں اے جان اٹھانا دل کا

    قیس کم ظرف تھا فرہاد تنک حوصلہ تھا

    دل لگی ہم تو سمجھتے ہیں لگانا دل کا

    سینہ چھلنی کیے دیتی ہیں نگاہیں ان کی

    ڈھونڈتے پھرتے ہیں یہ تیر ٹھکانا دل کا

    یوں نہ ہاتھ آئے گا یہ مال کبھی دزد حنا

    سیکھ دزدیدہ نگاہی سے چرانا دل کا

    متصل آہ کی پہلو سے صدا آتی ہے

    اب وہ ہے درد کا گھر تھا جو ٹھکانا دل کا

    نگہ ناز سے کہتے ہیں اڑا دے اس کو

    سامنے آ ہی گیا اب تو نشانا دل کا

    جی لگے آپ کا ایسا کہ کبھی جی نہ بھرے

    دل لگا کر جو سنیں آپ فسانا دل کا

    حسرت و درد کا اللہ رے فرقت میں ہجوم

    کہ نہیں اب کسی گوشے میں ٹھکانا دل کا

    دل مرا لے کے دکھا دی مجھے مٹھی خالی

    پھر کہا دیکھ لیا ہاتھ سے جانا دل کا

    ہائے وہ دیکھ کے ابھرا ہوا جوبن ان کا

    دونوں ہاتھوں سے مرا شب کو دبانا دل کا

    مشرب عشق میں کیسی ہیں یہ الٹی باتیں

    دل کے جانے کو یہ کیوں کہتے ہیں آنا دل کا

    دل جو دیں ان سے تو اے جان یہ گہرا پردہ

    اور روا رکھتے ہو پردے میں بھی آنا دل کا

    کسی پہلو پہ وہ آئیں مگر آئیں تو سہی

    نہ سنیں بات مری سن لیں فسانا دل کا

    گرمیاں کرنے کا ہے خوب سلیقہ ان کو

    سیکھو آنکھوں کی شرارت سے جلانا دل کا

    پھیر کر منہ مجھے تڑپاتے ہیں اور کہتے ہیں

    رخ بدل کر ہم اڑاتے ہیں نشانا دل کا

    جتنے ارمان تھے جی بھر کے نکالے اے جان

    وصل میں لوٹ لیا تم نے خزانا دل کا

    نگہ ناز سے غمزے نے کہا تڑپا کر

    یوں اڑا دیتے ہیں استاد نشانا دل کا

    ہر نگہ وصل میں اس شوخ کی کہتی ہے امیرؔ

    ہو جسے حکم اڑا دے وہ نشانا دل کا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے