ان کو وہ قصے سنائے ہیں کہ جی جانتا ہے
دلچسپ معلومات
تضمین بر غزل داغؔ دہلوی
ان کو وہ قصے سنائے ہیں کہ جی جانتا ہے
لب پہ نالے بھی وہ لائے ہیں کہ جی جانتا ہے
وہ نئے رنگ جمائے ہیں کہ جی جانتا ہے
لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے
تم نے سیکھا ہی نہیں شیوۂ ارباب کرم
یاد ہے تم کو بس انداز جفا طرز ستم
فتنے قربان ہیں جن پر یہ قدم ہیں وہ قدم
ان ہی قدموں نے تمہارے ان ہی قدموں کی قسم
خاک میں ایسے ملائے ہیں کہ جی جانتا ہے
جن کو پانا تھا انہیں پا گئیں دونوں آنکھیں
دید کا دھوکا مگر کھا گئیں دونوں آنکھیں
دیکھتے ہی انہیں شرما گئیں دونوں آنکھیں
کعبہ و دیر میں پتھرا گئیں دونوں آنکھیں
ایسے جلوے نظر آئے ہیں کہ جی جانتا ہے
ہوش اڑاتے ہیں معینؔ کے بھی ہر اک جلوے سے
دیکھ لینا ہی قیامت ہے ترا پردے سے
جو یہاں آتا ہے جاتا نہیں وہ اپنے سے
داغؔ وارفتہ کو ہم آج ترے کوچے سے
اس طرح کھینچ کے لائے ہیں کہ جی جانتا ہے
- کتاب : سرودِ روحانی (Pg. 295)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.