اٹھے نہ تھے ابھی ہم حال دل سنانے کو
اٹھے نہ تھے ابھی ہم حال دل سنانے کو
زمانہ بیٹھ گیا حاشیے چڑھانے کو
بھری بہار میں پہنچی خزاں مٹانے کو
قدم اٹھائے جو کلیوں نے مسکرانے کو
جلایا آتش گل نے چمن میں ہر تنکا
بہار پھونک گئی میرے آشیانے کو
جمال بادہ و ساغر میں ہیں رموز بہت
مری نگاہ سے دیکھو شراب خانے کو
قدم قدم پہ رلایا ہمیں مقدر نے
ہم ان کے شہر میں آئے تھے مسکرانے کو
نہ جانے اب وہ مجھے کیا جواب دیتے ہیں
سنا تو دی ہے انہیں داستاں سنانے کو
کہو کہ ہم سے رہیں دور حضرت واعظ
بڑے کہیں کے یہ آئے سبق پڑھانے کو
اب ایک جشن قیامت ہی اور باقی ہے
اداؤں سے تو وہ بہلا چکے زمانے کو
شب فراق نہ تم آ سکے نہ موت آئی
غموں نے گھیر لیا تھا غریب خانے کو
نصیرؔ جن سے توقع تھی ساتھ دینے کی
تلے ہیں مجھ پہ وہی انگلیاں اٹھانے کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.