قیس رخصت ہوا دنیا سے تو فرہاد آیا
قیس رخصت ہوا دنیا سے تو فرہاد آیا
ایک ناشاد گیا دوسرا ناشاد آیا
یاد اپنا مجھے پھر خانۂ برباد آیا
کیوں قفس لے کے مرے باغ میں صیاد آیا
پھر وہی وعدہ فراموش تجھے یاد آیا
پھر اس کی گلی کا دل ناشاد آیا
یوں زباں پر مرے کب شکوۂ بیداد آیا
جب کیے ظلم بتوں نے تو خدا یاد آیا
بے وفا اس پہ وفاداروں کا جانی دشمن
ہائے آیا بھی تو کس پہ دل ناشاد آیا
تیری ہی یاد سے آباد رہا خانۂ دل
بیٹھتے اٹھتے ہمیشہ مجھے تو یاد آیا
میری آہوں نے اڑا ڈالے قفس کے ٹکڑے
کس لیے اب مرے پر کھولنے صیاد آیا
قتل کر کے مجھے حسرت سے وہ رو کر بولے
ہائے کس وقت ترا عہد وفا یاد آیا
آئینہ خانہ مرے دل کا پسند اس کو ہوا
بن کے اس شیش محل میں وہ پری زاد آیا
یاد میں تیری مروت ہے کہ آ جاتی ہے
بے وفا تو بھی کبھی کرنے کو دل شاد آیا
گنج قاروں کو جو اللہ نے بخشا محسنؔ
پھر نہ اس وقت کے بندے کو خدا یاد آیا
- کتاب : Kulliyat-e-Mohsin
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.