Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

دنیا مان گئی

قیصر رتناگیروی

دنیا مان گئی

قیصر رتناگیروی

MORE BYقیصر رتناگیروی

    دنیا مان گئی

    تیر نظر کا او دلدارا

    تو نے اس انداز سے مارا

    ہو دنیا مان گئی

    صبح بنارس گال ہیں تیرے

    شامِ اودھ کی بال ہیں تیرے

    چڑھتا سورج مست جوانی

    دیکھ کے دنیا ہو دیوانی

    زلف گھنیری یوں لہرائے

    جیسے ساون جھوم کے آئے

    کومل کومل انگ ہے تیرا

    چاند جیسا رنگ ہے تیرا

    ریشمی آنچل دستِ حنائی

    قاتل تیری ہر انگڑائی

    دیکھ کے جس کو من للچائے

    پتلی کمر سو سو بل کھائے

    پگ پگ دھرتی چوم رہی ہے

    ناگن جیسی جھوم رہی ہے

    سر سے پا تک چلتا جادو

    کس کو رہے پھر دل پر قابو

    چنچل نٹ کھٹ شوخ حسینہ

    لب پہ ہنسی اور دل میں کینہ

    دل سے کھیلے پیار جتا کر

    مارا سب کو اپنا بنا کر

    ترچھی نظر کا کر کے اشارہ

    ایک تو کیا لاکھوں کو مارا

    ہو دنیا مان گئی

    جانِ تمنا جان غزل ہے

    حسنِ مجسم تاج محل ہے

    کہلانے کو ماہِ جبیں ہے

    حسن مروت تجھ میں نہیں ہے

    تیری ادائیں جان کی دشمن

    ڈس لیتی ہیں بن کر ناگن

    چاہنے والا چین گنوائے

    روتے رتے نین گنوائے

    امرت کہہ کر زہر پلائے

    پینے والا جان سے جائے

    اس کو تاکا اس کو لوٹا

    کوئی نہ تیرے دام سے چھوٹا

    ماری ایسی نین گٹاری

    جو بھی لگا وہ زخم تھا کاری

    ہو گیا دہل پارہ پارہ

    بچ نہ سکا کوئی غم کا مرا

    ہو دنیا مان گئی

    اپنی حقیقت بھولنے والے

    حسن کے بل پر پھولنے والے

    پریت کی یہ تو ریت نہیں ہے

    ہار ہے تیری جیت نہیں ہے

    دیکھ جوانی ہے دیوانی

    کب تک آخر یہ من مانی

    بات پتے کی بتلاتا ہوں

    وقت سے پہلے جتلاتا ہوں

    پانی سر سے اونچا ہو کر

    رکھ ہی دے گا تجھ کو ڈبو کر

    آج سمجھ جا سمجھانے سے

    فائدہ کیا کل پچھتانے سے

    خوب سمجھ لے دل میں اپنے

    ٹوٹیں گے یہ سارے سپنے

    اب تو سمجھ قیصرؔ کا اشارہ

    ہر کوئی گھبرا کے پکارا

    ہو دنیا مان گئی

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے