رکھا نہ اب کہیں کا دل بے قرار نے
رکھا نہ اب کہیں کا دل بے قرار نے
برباد کر دیا غم بے اختیار نے
دل تو کبھی کا نذر کیا جاں نثار نے
اک جاں ہے وہ بھی آپ کا صدقہ اتارنے
اس فتنہ گر کو جیت لیا ہار مان کر
کیا کیا مزہ دیا ہمیں اس جیت ہار نے
پہلو بدل بدل کے مزے درد کے لئے
وہ کروٹیں دکھائیں دل بے قرار نے
اب خواب میں بھی دید کو آنکھیں ترس گئیں
بے خواب کر دیا غم شب زندہ دار نے
وہ فصل گل میں دل کو جلا کر چلے گئے
اس مرتبہ تو آگ لگا دی بہار نے
خاموش بھی ہوں میں تو مجھے سن رہے ہیں وہ
اتنا تو کر دیا مرے دل کی پکار نے
سو سو طرح کی موت سے پالا پڑا ہمیں
کیا کیا کرم کیا ہے ترے انتظار نے
دنیائے نطق بہہ گئی سیلاب اشک میں
پوچھا جو ہم سے حال کسی غم گسار نے
ناداں پکار اس کو جو سنتا ہے تیری بات
تو اس کو چھوڑ کس کو چلا ہے پکارنے
کاملؔ نگاہ اس کی جمی جس پے جم گئی
چاہا جسے پسند کیا چشم یار نے
- کتاب : سرودِ روحانی (Pg. 266)
- اشاعت : Second
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.