رقم پیدا کیا کیا طرفہ بسم اللہ کی مد کا
رقم پیدا کیا کیا طرفہ بسم اللہ کی مد کا
سر دیوان لکھا ہے میں نے مطلع نعت احمدؐ کا
طلوع روشنی جیسے نشاں ہو شہ کی آمد کا
ظہور حق کی حجت ہے جہاں میں نور احمد کا
دبستان ازل میں وہ معلم عقل کل کا تھا
نہ تھا نام و نشاں جن روزوں اس لوح زبرجد کا
چمن پیرائے کن فراش اس کی بزم رنگیں میں
بہار آفرینش ایک بوٹا اس کی مسند کا
عجم میں زلزلہ نوشیرواں کے قصر میں آیا
عرب میں غل ہوا جس وقت اس کی آمد آمد کا
شرف حاصل ہوا آدم اور ابراہیم کو اس سے
نہ تنہا فخر عالم فخر تھا اپنے اب و جد کا
شب و روز ان کے صاحزادوں کا گہوارۂ جنباں تھا
عجب ڈھب یاد تھا روح الامیں کو بھی خوشامد کا
وہ اس عالم میں رونق بخش تھا حوروں کی تسکیں کو
گیا جنت میں طوبیٰ بن کے سایہ اس سہی قد کا
رواں تسنیم و کوثر ایک قطرۂ آب سے اس کے
کروں کیا وصف اس دریتیم بحر سرمد کا
شب معراج چڑھ کر عرش سے دم میں اتر آیا
بیاں اس قلزم مانی کا ہو کیا جزر اور مد کا
کشادہ عقدۂ باطن میں کافی نام حق اس کو
کھلا کرتا ہے بن کنجی ہمیشہ قفل ابجد کا
وفات ظاہری سے جوہر جاں میں نہ فرق آیا
وہ جسم پاک کو محسود تھا روح مجرد کا
گر افعی بن کے جاں نکلے ادھر ابلیس اندھا ہو
ملا ہے قصر اخضر روح کو اس کی زمرد کا
ادھر اللہ سے واصل ادھر مخلوق سے شامل
خواص اس برزخ کبریٰ میں ہے حرف مشدد کا
نہ کم قدر اس کی شیرازہ بکھر جائے ارکاں کے
نہ افزوں رتبۂ قرآں مجزا سے مجلد کا
گزر وحدت سے کثرت میں نہ ہوتا ذات مطلق کو
نہ بنتا صفر گر نقش احد پر میم احمد کا
بھروسا ہر کسی کو ایک حصار عافیت کا ہو
مجھے نام مبارک کا ہے ذوالقرنین کو سد کا
ترے پابوس سے ہفتم فلک پر منزل کیواں
ترے سجدے میں ہشتم آسماں پر فرق فرقد کا
خدا بن مانگے کیا کیا نعمتیں دیتا ہے بندوں کو
ترا دست دعا ضامن ہے جیسے کل کے مقصد کا
بٹیں گے جس گھڑی عشرت کے ساماں بزم جنت میں
کھلے گا حال امت کو ترے انعام بے حد کا
رہا کعبے میں تیرے روضے کے در پر نہ جا پائی
اسی اندوہ سے ہے رنگ تیرہ سنگ اسود کا
نشانہ تا در انداز قد کا دست و بازو ہو
تری خواہش کرے تیر قضا کو حکم گر رد کا
لب گوہر فشاں ہوں گے جب عرض شفاعت کو
تماشا گاہ محشر میں تکیں گے نیک منہ بد کا
عدو کو حشر تک انکار ہو تیری رسالت میں
محل باقی رہے اللہ کے قول مؤکد کا
ہوا تجھ سا نہ ہو سکتا ہے میرا ہے یہی ایماں
نہ مانوں مسئلہ ہرگز کسی زندیق و مرتد کا
تری تعریف سے میری زباں میں آئی ہے تیزی
صفا ہاں تک مسخر ہوگا تیغ مہند کا
پھٹیں گے مثل تقویم کہن دیواں ہزاروں کے
ہوا عالم میں شہرہ میرے اشعار مجدد کا
ہوئی ہے ہمت عالی مری معراج کی طالب
میسر ہو طواف اے کاش مجھ کو تیری مرقد کا
کبھی نزدیک جا کر آستانہ پر ملوں آنکھیں
کبھی گر دور بیٹھوں میں کروں نظارہ گنبد کا
فراغ دل سے گر واں زندگی کا کوئی دم گزرے
حسد ہو خضر و عیسیٰ کو مرے عیش مخلد کا
مدینے کی زمیں کے گر نہ لائق ہو مرا لاشہ
کسی صحرا میں واں کے طعمہ ہوں میں دام اور دد کا
تمنا ہے درختوں پر ترے روضے کے جا بیٹھے
قفس جس وقت ٹوٹے طائر روح مقید کا
خدا منہ چوم لیتا ہے شہیدیؔ کس محبت سے
زباں پر میری جس دم نام آتا ہے محمدؐ کا
- کتاب : نعت کے چند شعرائے معتقدین (Pg. 42)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.