Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

مجھ بلانوش کو تلچھٹ بھی ہے کافی ساقی

رند لکھنوی

مجھ بلانوش کو تلچھٹ بھی ہے کافی ساقی

رند لکھنوی

MORE BYرند لکھنوی

    مجھ بلانوش کو تلچھٹ بھی ہے کافی ساقی

    بھر دے چلو میں جو ہو شیشے میں باقی ساقی

    بھر کے پلواتا نہیں ایک پیالی ساقی

    ساری میں مانگتا ہوں دیتا ہے آدھی ساقی

    تو نے کیا آتش حل کردہ پلا دی ساقی

    بھون ڈالا ہے جگر آگ لگا دی ساقی

    پھول مانگوں تو پلاتا ہے برانڈی ساقی

    کرتا ہے بزم گزشتہ کی تلافی ساقی

    جام جم چاہیے رندوں کو نہ شاہی ساقی

    سلطنت ہے ترے کوچہ کی گدائی ساقی

    جام اوروں کو دیے مجھ کو پیالی ساقی

    خود بہکنے لگا مانند شرابی ساقی

    کیا کروں پی کے بھلا ایک پیالی ساقی

    اس تنک ظرفی کا بندہ نہیں عادی ساقی

    کب سے کہتا ہوں بلانوش میں ساقی ساقی

    اور پلوا دے جو ہو شیشہ میں باقی ساقی

    مرض ہجر میں مے گرچہ مضر ہے لیکن

    میں تو پی جاتا ہوں اللہ ہے ساقی ساقی

    صبح سے شام تلک ہاتھ سے چھٹتا نہیں جام

    چاہیے اپنا تخلص کرے جامیؔ ساقی

    مصلحت ہوگی جو محروم رکھا مے سے مجھے

    فعل حکمت سے نہیں ہے ترا خالی ساقی

    مست کیا جانیں کدھر دیر ہے کعبہ ہے کہاں

    عمر ساری تری بھٹی میں گزاری ساقی

    مسجد و دیر و کلیسا کی وہ رونق نہ رہی

    تو نے بنیاد جو مے خانے کی ڈالی ساقی

    دیکھیے صحبت نا جنس نبھے گی کیوں کر

    پست ہمت تو طبیعت مری عالی ساقی

    فصل گل آ چکی کیا دور سے دہکاتا ہے

    مئے گل رنگ سے بھر بھر کے گلابی ساقی

    واعظو وہی کروں گا میں جو فتویٰ دے گا

    قبلہ و کعبہ و مرشد مرا ہادی ساقی

    شیشہ و جام و سبو ہوں گے ابھی چکنا چور

    مست بہکے تو بڑی ہوگی خرابی ساقی

    کوئی آفت ترے مے خانے پہ آ سکتی ہے

    سب دعا گو ہیں یہ جتنے ہیں شرابی ساقی

    صرف لللہ بھی مے خانے میں جاری کر دے

    مقتضی ہو جو تری ہمت عالی ساقی

    تنگ ہو کر ترے ہر بار کے دہکانے سے

    کوس بیٹھے نہ کوئی رند شرابی ساقی

    جو پیے گا نہ شراب آج وہ مجرم ہوگا

    کو بہ کو کل سے تو کر دے یہ منادی ساقی

    درد بھی مجھ کو پلا دے گا تو بد مستی میں

    سب سنا دوں گا میں دیوان زلالی ساقی

    برف پلوا کے کلیجہ مرا ٹھنڈا کر دے

    آب انگور نے تو آگ لگا دی ساقی

    ترا جی چاہے تو پلوا دے کوئی جام شراب

    ہاتھ پھیلانے کا بندہ نہیں عادی ساقی

    نفس گرم کی تاثیر نے مئے ساغر سے

    شعلۂ لفظ کے مانند اڑا دی ساقی

    اور تو حسرتیں سب رندؔ کے دل سے نکلیں

    جام کوثر کی تمنا رہی باقی ساقی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے