رخ سے پردہ ہٹا دے ذرا ساقیا بس ابھی رنگ محفل بدل جائے گا
رخ سے پردہ ہٹا دے ذرا ساقیا بس ابھی رنگ محفل بدل جائے گا
جو ہے بے ہوش وہ ہوش میں آئے گا گرنے والا جو ہے وہ سنبھل جائے گا
تم تسلی نہ دو صرف بیٹھے رہو میرے مرنے کا کچھ وقت ٹل جائے گا
کیا یہ کم ہے مسیحا کے رہنے ہی سے موت کا بھی ارادہ بدل جائے گا
اپنے پردے کا رکھنا مگر کچھ بھرم سامنے آنا جانا مناسب نہیں
ایک وحشی سے یہ چھیڑ اچھی نہیں کیا کرو گے اگر یہ مچل جائے گا
میرا دامن تو جل ہی چکا ہے مگر آنچ تم پر بھی آئے گوارا نہیں
میرے آنسو نہ پونچھو خدا کے لیے ورنہ دامن تمہارا بھی جل جائے گا
پھول کچھ اس طرح توڑ اے باغباں شاخ ہلنے نہ پائے نہ آواز ہو
ورنہ گلشن پہ رونق نہ پھر آئے گی دل اگر ہر کسی کا دہل جائے گا
لوگ سمجھے تھے یہ انقلاب آتے ہی نظم کہنہ چمن کا بدل جائے گا
یہ خبر کس کو تھی آتش گل سے ہی تنکا تنکا نشیمن کا جل جائے گا
اک مدت ہوئی اس کو روتے ہوئے ایک عرصہ ہوا مسکرائے ہوئے
ضبط غم کا اب اور اس سے وعدہ نہ لو ورنہ بیمار کا دم نکل جائے گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.