رشک برق طور شمع محفل جانانہ ہے
ماہ نو ٹوٹا ہوا اس بزم کا پیمانہ ہے
کفر کا فتوے لگاتا ہے ہر اک مے خوار پر
عقل پر پتھر پڑے ہیں شیخ کا دیوانہ ہے
جان سے عشاق جاتے ہیں خبر لیتے نہیں
اس جہاں میں کوئی ہو گا تم سا بے پروا نہ ہے
ہوش میں آ اب نہ رکھ صحرا نوردی سے غرض
کچھ خیال آبرو تجھ کو دل دیوانہ ہے
ماہ تاباں سے فزوں ہے حسن میں جس کے ضیا
اس چراغ بزم رفعت کا یہ دل پروانہ ہے
رکھ نہ نخوت سے قدم غافل کر اتنا تو خیال
آسیائے چرخ نے پیسا اسے جو دانہ ہے
کیوں نہ الجھن میں بسر ہو دوستو لیل و نہار
مرغ دل اپنا اسیر گیسوئے جانانہ ہے
ہو کے بے خود نشۂ مے سے زمیں پر گر پڑے
بس یہی رندوں کا ساقی سجدۂ شکرانہ ہے
واں وہ گل مشغول ہے سیر گلستاں میں سعیدؔ
یا چھلکنے کو ہماری عمر کا پیمانہ ہے
مأخذ :
- کتاب : Asli Guldasta-e-Qawwali (Pg. 12)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.