سفینہ مرا ساحل آشنا معلوم ہوتا ہے
سفینہ مرا ساحل آشنا معلوم ہوتا ہے
مجھے یہ بھی فریب نا خدا معلوم ہوتا ہے
ترے غم کا جہاں تک سلسلہ معلوم ہوتا ہے
وہیں تک میری ہستی کا پتا معلوم ہوتا ہے
نہ پوچھو اے دوست شام غم میں کیا معلوم ہوتا ہے
مجھے ہر دم قضا کا سامنا معلوم ہوتا ہے
بہر لحظہ بہ ہر ساعت سوا معلوم ہوتا ہے
تمہارے غم طبیعت آشنا معلوم ہوتا ہے
نفس کی آمد و شد سے پتا معلوم ہوتا ہے
کہ اس پردے میں کوئی دوسرا معلوم ہوتا ہے
امیدیں ٹوٹتی ہیں ڈوبتی جاتی ہیں نبض بھی
دل بیتاب کو آرام سا معلوم ہوتا ہے
اسی کے دم سے ہے کونین کی ہنگامہ آرائی
بہ ظاہر عشق بے برگ و نوا معلوم ہوتا ہے
تری شبنم فشاں آنکھوں کا آنسو تیرے دامن پر
ستارہ عرش سے ٹوٹا ہوا معلوم ہوتا ہے
اسے میرا سکون دل گوارا کس طرح ہوگا
جسے میرا تڑپنا بھی برا معلوم ہوتا ہے
حقیقت یہ ہے ماہرؔ سخت کا فرزند مشرب ہے
مگر وہ دیکھنے میں پارسا معلوم ہوتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.