Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

کہاں جائے نظر اور جائے تو جائے کدھر ہو کر

سیماب اکبرآبادی

کہاں جائے نظر اور جائے تو جائے کدھر ہو کر

سیماب اکبرآبادی

MORE BYسیماب اکبرآبادی

    کہاں جائے نظر اور جائے تو جائے کدھر ہو کر

    وہ خود بیٹھے ہوئے ہیں حائل حد نظر ہو کر

    ہزاروں سوز در دل لوٹ آئے طور پر ہو کر

    یہ تم نے کیا لگا دی آگ اک دن جلوہ گر ہو کر

    حوادث کے بھنور میں بیٹھ جا سینہ سپر ہو کر

    یہی موجیں کبھی ساحل بنیں گی مختصر ہو کر

    تماشائی ہے ہر ذرے کا خاک رہ گزر ہو کر

    یہ تیری پست بینی اس قدر بالغ نظر ہو کر

    ہمیشہ مشکلوں کی انتہا ہوتی ہے آسانی

    شب غم صبح بن جاتی ہے بالآخر بسر ہو کر

    ہنسی آتی ہے مجھ کو اپنے اس سودائے ناقص پر

    کہ تیرے دیکھنے کی آرزو ہے خود نگر ہو کر

    وہ آزادی سے کر سکتا نہیں پرواز گلشن میں

    جو بیٹھا ہے اسیر احتیاج بال و پر ہو کر

    بصد مشکل قریب آستان دوست پہنچا ہوں

    حرم سے دور ہو کر بت کدے سے دور تر ہو کر

    ترا دل کیا خدائی بھر کے دل اک روز دھڑکیں گے

    نوائے عشق گونجے گی نوائے کار گر ہو کر

    نہ ہو محو تماشا خلوت محدود ہستی میں

    گزر جا وسعت کونین کی حد سے نظر ہو کر

    اسی پر بوالہوس کو زعم ہے طوفاں اٹھانے کا

    بہت رویا تو دامن رہ گیا اشکوں میں تر ہو کر

    تصور کا یہ ادنیٰ کھیل ہے اے حسن آوارہ

    رہی برسوں تری تصویر پابند نظر ہو کر

    نظر ہو چار سو حیراں یہ توہین تماشا ہے

    میں اب کس کی طرف دیکھوں طرح جلوہ نگر ہو کر

    یہ ہے طرفہ تصرف بے قرار دل کے مزاروں کا

    ٹھہر جاتا ہے دم بھر جو نکلتا ہے ادھر ہو کر

    تمہیں کو مانگتا ہوں تم سے وہ ضدی بھکاری ہوں

    مرے دست دعا میں خود ہی آ جاؤ اثر ہو کر

    جو دل ٹوٹے تو ہر ٹکڑے سے دل کے پھر بنا اک دل

    ہے کیوں رنج شکست آئینہ آئینہ گر ہو کر

    کوئی طوفاں نیا اٹھتا ہے یا بجلی چمکتی ہے

    کسی دن طور پر ہم بھی دیکھیں جلوہ گر ہو کر

    نہیں جس میں تحمل مشکلات راہ منزل کا

    وہ پچھتائے گا اے سیمابؔ میرا ہم سفر ہو کر

    ویڈیو
    This video is playing from YouTube

    Videos
    This video is playing from YouTube

    نا معلوم

    نا معلوم

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے