کہاں جائے نظر اور جائے تو جائے کدھر ہو کر
کہاں جائے نظر اور جائے تو جائے کدھر ہو کر
وہ خود بیٹھے ہوئے ہیں حائل حد نظر ہو کر
ہزاروں سوز در دل لوٹ آئے طور پر ہو کر
یہ تم نے کیا لگا دی آگ اک دن جلوہ گر ہو کر
حوادث کے بھنور میں بیٹھ جا سینہ سپر ہو کر
یہی موجیں کبھی ساحل بنیں گی مختصر ہو کر
تماشائی ہے ہر ذرے کا خاک رہ گزر ہو کر
یہ تیری پست بینی اس قدر بالغ نظر ہو کر
ہمیشہ مشکلوں کی انتہا ہوتی ہے آسانی
شب غم صبح بن جاتی ہے بالآخر بسر ہو کر
ہنسی آتی ہے مجھ کو اپنے اس سودائے ناقص پر
کہ تیرے دیکھنے کی آرزو ہے خود نگر ہو کر
وہ آزادی سے کر سکتا نہیں پرواز گلشن میں
جو بیٹھا ہے اسیر احتیاج بال و پر ہو کر
بصد مشکل قریب آستان دوست پہنچا ہوں
حرم سے دور ہو کر بت کدے سے دور تر ہو کر
ترا دل کیا خدائی بھر کے دل اک روز دھڑکیں گے
نوائے عشق گونجے گی نوائے کار گر ہو کر
نہ ہو محو تماشا خلوت محدود ہستی میں
گزر جا وسعت کونین کی حد سے نظر ہو کر
اسی پر بوالہوس کو زعم ہے طوفاں اٹھانے کا
بہت رویا تو دامن رہ گیا اشکوں میں تر ہو کر
تصور کا یہ ادنیٰ کھیل ہے اے حسن آوارہ
رہی برسوں تری تصویر پابند نظر ہو کر
نظر ہو چار سو حیراں یہ توہین تماشا ہے
میں اب کس کی طرف دیکھوں طرح جلوہ نگر ہو کر
یہ ہے طرفہ تصرف بے قرار دل کے مزاروں کا
ٹھہر جاتا ہے دم بھر جو نکلتا ہے ادھر ہو کر
تمہیں کو مانگتا ہوں تم سے وہ ضدی بھکاری ہوں
مرے دست دعا میں خود ہی آ جاؤ اثر ہو کر
جو دل ٹوٹے تو ہر ٹکڑے سے دل کے پھر بنا اک دل
ہے کیوں رنج شکست آئینہ آئینہ گر ہو کر
کوئی طوفاں نیا اٹھتا ہے یا بجلی چمکتی ہے
کسی دن طور پر ہم بھی دیکھیں جلوہ گر ہو کر
نہیں جس میں تحمل مشکلات راہ منزل کا
وہ پچھتائے گا اے سیمابؔ میرا ہم سفر ہو کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.