اے فطرت آوارہ اے جلوۂ ہرجائی
اے فطرت آوارہ اے جلوۂ ہرجائی
کیا علم میں ہے تیرے میرا غم تنہائی
اتنی تو کشش فرما اے شعلۂ سینائی
خاکستر موسیٰ پھر لینے لگے انگڑائی
پھر تیرے تبسم کی نظریں ہیں تمنائی
وہ منتخب اک عشوہ منجملۂ رعنائی
ہیں عشق کے دو نغمے بستانی و صحرائی
رویا تو گھٹا اٹھی گایا تو بہار آئی
جلووں کی تو عادت ہے محجوب نظر رہنا
کچھ تجھ میں بھی جرأت ہے اے چشم تماشائی
اک عمر ہوئی حیراں ہوں تیرے تجسس میں
رہنے بھی دے بس اپنی یہ انجمن آرائی
جب سے مجھے محویت ہے تیرے تصور میں
آسودۂ جلوت ہوں بے منت تنہائی
دیوانوں کی تیرے ہے پابند ہوائے گل
زنجیر بڑھانے کو اٹھے کہ بہار آئی
سیمابؔ غزل گوئی اب اس کے سوا کیا ہے
بے فصل کا اک نغمہ بے وقت کی شہنائی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.