طول رہ حیات سے گھبرا رہا ہوں میں
طول رہ حیات سے گھبرا رہا ہوں میں
گھبرا رہا ہوں اور چلا جا رہا ہوں میں
پیغام رفعتوں کے جو پہنچا رہا ہوں میں
دنیا پہ آسماں کی طرح چھا رہا ہوں میں
کچھ یوں بھی ہے کہ فطرت غم ہے سکوں پسند
کچھ یہ بھی ہے کہ ضبط کئے جا رہا ہوں میں
قید جنوں میں رشتۂ پائے خیال کو
سلجھا رہا ہوں اور پھر الجھا رہا ہوں میں
آ اور دیکھ محویت بے خودی مری
تجھ سے بھی بے نیاز ہوا جا رہا ہوں میں
چھوتی نہیں مجھے پر جبریل کی ہوا
یہ کن بلندیوں پہ اڑا جا رہا ہوں میں
اب وہ مذاق شانہ و گیسو نہیں رہا
اب تو خم خیال کو سلجھا رہا ہوں میں
تیری صدا پہ کان زباں تیری ترجماں
جو گیت سن رہا ہوں وہی گا رہا ہوں میں
کیا اب بھی شک تجھے مری پیغمبری میں ہے
تیرا پیام روح کو پہنچا رہا ہوں میں
شاکی ہوں حسن سے نہ محبت سے سرگراں
کیف وفا بقدر وفا پا رہا ہوں میں
مرکز پہ اپنے دھوپ سمٹتی ہے جس طرح
یوں رفتہ رفتہ تیرے قریب آ رہا ہوں میں
منظور ہے مجھے کشش حسن سے شکست
لے آج تجھ میں جذب ہوا جا رہا ہوں میں
تنقید کر رہا ہوں مزاج جمال پر
کانٹوں میں بوئے گل کو لئے جا رہا ہوں میں
پھر دے رہا ہوں قوت وسعت خیال کو
سمٹی ہوئی بساط کو پھیلا رہا ہوں میں
تاج و کلاہ و تخت پہ میری نظر کہاں
اب اپنے ہی وجود کو ٹھکرا رہا ہوں میں
ہے حسن اک جھلک مرے عشق تمام کی
اپنی ہی اک ادا پہ مٹا جا رہا ہوں میں
اٹھتا ہوں میکدے سے اور آج اپنے ساتھ
جام و شراب کو بھی لئے جا رہا ہوں میں
کیوں میرے ترک بادہ پہ تجھ کو یقیں نہیں
ساقی ترے لبوں کی قسم کھا رہا ہوں میں
تحلیل ہو رہی ہے مری روح ہر نفس
تعمیر کائنات میں کام آ رہا ہوں میں
پھر دے رہا ہوں فطرت انساں کو درس ناز
سر آستان حسن سے اٹھوا رہا ہوں میں
دستم بخیر ہاتھ میں ہے زور انقلاب
ذروں کو آفتاب سے ٹکرا رہا ہوں میں
سیمابؔ کس نے عرش سے آواز دی مجھے
کہہ دو کہ انتظار کرے آ رہا ہوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.