آتا نظر ہے جلوۂ دیدار ہر طرف
آتا نظر ہے جلوۂ دیدار ہر طرف
دیدار اینما کے ہیں انوار ہر طرف
طرز خرام ناز سے لاکھوں ہیں پائمال
اس شوخ فتنہ گر کی ہے رفتار ہر طرف
اتنے پلائے ہم کو مے بے خودی کے جام
مستانہ وار پھرتے ہیں مے خوار ہر طرف
لاکھوں شہید ہوتے ہیں بسمل ہزارہا
ابرو کی جب چمکتی ہے تلوار ہر طرف
چھائی گھٹا ہے اور چمکتی ہیں بجلیاں
باران نور برسے ہے ہر بار ہر طرف
یوسف کا صرف ایک زلیخا کو عشق تھا
اس شوخ کے یہاں ہیں خریدار ہر طرف
ہجدہ ہزار خلق میں آدم خلیفہ ہے
تسخیر میں ہے اس کے یہ دربار ہر طرف
خواجہ پہاڑی چل کے مئے عشقیہ تو پی
دیکھے گا چشم مست سے سرشار ہر طرف
دیدار یار ہو گیا سوداگرؔ اب نصیب
آتی نظر ہے صورت سوداگرؔ ہر طرف
- کتاب : دیوانِ سوداگر (Pg. 76)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.