تڑپتے لوٹتے سینہ سپر ہوتے ہیں بستر پر
دہان زخم کا ہر دانت ہے قاتل کے خنجر پر
اشارہ ابروے خم دار دھمکاتا ہے قاتل کا
گلا رکھ دیں گے آ کر عاشق جانباز خنجر پر
جسے چاہیں کریں رسوا اسی کا نام الفت ہے
بدی کا چاہیے ہرگز گماں اے دل نہ دلبر پر
خدا کے سامنے کہہ دوں گا جو کچھ دل پہ گزری ہے
نہ لکھیں کاتب اعمال قصہ میرا دفتر پر
ترے بیمار غم کی حال پر دشمن بھی روتے ہیں
شب فرقت بسر کی کروٹیں لے لے کے بستر پر
تڑپتا ہے مچلتا ہے جہاں کوئی حسیں دیکھا
نہیں چلتا ہے کچھ قابو دل بے تاب و مضطر پر
ترے دریائے الفت میں پڑے یوں جان کے لالے
بھنور سے جس طرح اچھلے کوئی پانی کی چادر پر
ہزاروں کر دیے اک وار میں چو رنگ ظالم نے
صفائی اس طرح آئی مرے قاتل کے خنجر پر
لگا اک وار خنجر کا کہ ہو جائے سبک دوشی
ترا احسان اے قاتل رہے گا یہ مرے سر پر
وہ آئینہ مقابل رکھ کے ہم سے منہ ملاتے ہیں
مقدر کو ہمارے فوق حاصل ہے سکندر پر
مراتب وہ دئے ہیں احمد مختار کو حق نے
لئے رہتے تھے جبریل امیں قدموں کو شہ پر پر
غرور حسن سے اے شرفؔ دھمکاتے ہیں عاشق کو
جوانی کا یہ عالم ہے تلے رہتے ہیں وہ شر پر
مأخذ :
- کتاب : Guldasta-e-Qawwali (Pg. 29)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.