دوست آئے کہ کوئی دوست کا پیغام آئے
دوست آئے کہ کوئی دوست کا پیغام آئے
آئے جس طرح سے بیمار کو آرام آئے
خم چھپائے ہوئے بغلوں میں تہی جام آئے
ساقیا دیکھ ترے مے کدہ آشام آئے
ابر چھایا ہے ہوا مست ہے گلشن خاموش
کاش اس وقت وہ ہاتھوں میں لیے جام آئے
چھوڑ دے تاکہ میں اٹھا جاؤں بھری محفل سے
ہم نشیں یاد مجھے وصل کے ایام آئے
شان ہے یہ بھی تری بزم طرب کہ ساقی
کوئی بدمست ہو پی کر کوئی ناکام آئے
اس کے کوچے سے مرے نعش لیے جاتے ہیں
کوئی قاتل سے یہ کہہ دو کہ سر بام آئے
وعدۂ حور پہ ہونا نہ تبسمؔ مسرور
دیکھنا دل میں نہ ایسی ہوس خام آئے
- کتاب : Kulliyat-e-Sufi Tabassum (Pg. 86)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.