خیال آیا جو اس مہ رو کو گلگشت خیاباں کا
خیال آیا جو اس مہ رو کو گلگشت خیاباں کا
نظر کچھ اور ہی آنے لگا عالم گلستاں کا
فنا اور محو ہو گر آرزوئے قرب ہے تجھ کو
کمال علم صرف و نحو سے کیا فخر انساں کا
تری صورت کو دیکھ اے معدن خوبیٔ تحیر سے
سر بازار پتھر بن گیا لعل بدخشاں کا
نکل سکتا نہیں پیچیدہ دام حسن و محبوبی
بڑا ہی پیچ کامل ہے عزیز و زلف پیچاں کا
حصار عافیت سے مت قدم باہر نکال اپنا
کہ طفل اشک ابتر چھوڑ کر ہو سایہ مژگاں کا
عذاب گور کی نسبت سے پھر بھی عیش و عشرت ہے
اگرچہ دہر میں محتاج ہے تو اک لب ناں کا
رفاقت اپنی کیوں کر زاہد خود کام سے ہووے
میں کوئے یار کا طالب ہوں وہ مشتاق رضواں کا
شبیہ عاشق مضطر کو دیکھ اے کوہ رعنائی
اگر منظور ہے تجھ کو تماشا سنگ لرزاں کا
بزرگوں کا خفا ہونا بھی شفقت سے نہیں خالی
کہ گرمیٔ رخ گردوں نشاں ہے ابر و باراں کا
بلا پیک الٰہی ہے نہ ہو چیں بر جبیں اس سے
کرے کب شکر پیش حق دل رنجیدہ مہماں کا
وسیلہ انبیا اور اولیا کا بھی عجب شے ہے
نہ دیکھا دوستان نوح نے کچھ خوف طوفاں کا
وہ بے دانش ہیں جو خورشید عالم تاب کہتے ہیں
یہ شعلہ ہے کسی عاشق کی آہ آتش افشاں کا
دل دیوانہ اپنے پاؤں پھیلائے تو کیا سیدؔ
بہت ہی مختصر ہے دوستو دامن بیاباں کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.