Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

تم اک گورکھ دھندہ ہو

ناز خیالوی

تم اک گورکھ دھندہ ہو

ناز خیالوی

MORE BYناز خیالوی

    کبھی یہاں تمہیں ڈھونڈا کبھی وہاں پہنچا

    تمہاری دید کی خاطر کہاں کہاں پہنچا

    غریب مٹ گئے پامال ہو گئے لیکن

    کسی تلک نہ تیرا آج تک نشاں پہنچا

    ہو بھی نہیں اور ہر جا ہو

    تم اک گورکھ دھندہ ہو

    ہر ذرے میں کس شان سے تو جلوہ نما ہے

    حیراں ہے مگر عقل میں کیسا ہے تو کیا ہے

    تجھے دیر و حرم میں میں نے ڈھونڈھا تو نہیں ملتا

    مگر تشریف فرما تجھ کو اپنے دل میں دیکھا ہے

    جب بجز تیرے کوئی دوسرا موجود نہیں

    پھر سمجھ میں نہیں آتا تیرا پردہ کرنا

    تم اک گورکھ دھندہ ہو

    کوئی صف میں تمہاری کھو گیا ہے

    اسی کھوئے ہوئے کو کچھ ملا ہے

    نہ بت خانے نہ کعبے میں ملا ہے

    مگر ٹوٹے ہوئے دل میں ملا ہے

    عدم بن کر کہیں تو چھپ گیا ہے

    کہیں تو ہست بن کر آ گیا ہے

    نہیں ہے تو تو پھر انکار کیسا

    نفی بھی تیرے ہونے کا پتہ ہے

    میں جس کو کہہ رہا ہوں اپنی ہستی

    اگر وہ تو نہیں تو اور کیا ہے

    نہیں آیا خیالوں میں اگر تو

    تو پھر میں کیسے سمجھا تو خدا ہے

    تم اک گورکھ دھندہ ہو

    حیران ہوں

    میں حیران ہوں اس بات پہ تم کون ہو کیا ہو

    ہاتھ آؤ تو بت ہاتھ نہ آؤ تو خدا ہو

    اصل میں جو مل گیا لا الہ کیوں کر ہوا

    جو سمجھ میں آ گیا پھر وہ خدا کیوں کر ہوا

    فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں

    ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں

    چھپتے نہیں ہو سامنے آتے نہیں ہو تم

    جلوہ دکھا کے جلوہ دکھاتے نہیں ہو تم

    دیر و حرم کے جھگڑے مٹاتے نہیں ہو تم

    جو اصل بات ہے وہ بتاتے نہیں ہو تم

    حیراں ہوں میرے دل میں سمائے ہو کس طرح

    حالانکہ دو جہاں میں سماتے نہیں ہو تم

    یہ معبد و حرم، یہ کلیسا و دیر کیوں

    ہرجائی ہو جبھی تو بتاتے نہیں ہو تم

    بس تم اک گورکھ دھندہ ہو

    نت نئے نقش بناتے ہو مٹا دیتے ہو

    جانے کس جرم تمنا کی سزا دیتے ہو

    کبھی کنکر کو بنا دیتے ہو ہیرے کی کنی

    کبھی ہیروں کو بھی مٹی میں ملا دیتے ہو

    زندگی کتنے ہی مردوں کو عطا کی جس نے

    وہ مسیحا بھی صلیبوں پہ سجا دیتے ہو

    خواہش دید جو کر بیٹھے سر طور کوئی

    طور ہی بڑھ کے تجلی سے جلا دیتے ہو

    نار نمرود میں ڈلواتے ہو خود اپنا خلیل

    خود ہی پھر نار کو گلزار بنا دیتے ہو

    چاہ کنعان میں پھینکو کبھی ماہ کنعاں

    نور یعقوب کی آنکھوں کا بجھا دیتے ہو

    بیچو یوسف کو کبھی مصر کے بازاروں میں

    آخر کار شہ مصر بنا دیتے ہو

    جذب و مستی کی جو منزل پہ پہنچتا ہے کوئی

    بیٹھ کر دل میں انا الحق کی صدا دیتے ہو

    خود ہی لگواتے ہو پھر کفر کے فتوے اس پر

    خود ہی منصور کو سولی پہ چڑھا دیتے ہو

    اپنی ہستی بھی وہ اک روز گنوا بیٹھتا ہے

    اپنے درشن کی لگن جس کو لگا دیتے ہو

    کوئی رانجھا جو کبھی کھوج میں نکلے تیری

    تم اسے جھنگ کے بیلے میں اڑا دیتے ہو

    جستجو لے کے تمہاری جو چلے قیس کوئی

    اس کو مجنوں کسی لیلیٰ کا بنا دیتے ہو

    جوت سسی کے اگر من میں تمہاری جاگے

    تم اسے تپتے ہوئے تھل میں جلا دیتے ہو

    سوہنی گر تم کو مہیوال تصور کر لے

    اس کو بپھری ہوئی لہروں میں بہا دیتے ہو

    خود جو چاہو تو سر عرش بلا کر محبوب

    ایک ہی رات میں معراج کرا دیتے ہو

    تم اک گورکھ دھندہ ہو

    ویڈیو
    This video is playing from YouTube

    Videos
    This video is playing from YouTube

    نصرت فتح علی خان

    نصرت فتح علی خان

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے