اس پردے میں پوشیدہ کوئی ماہ جبیں ہے
دلچسپ معلومات
محمد علی بخش واعظ قوال نے حضرت رازؔ کی غزل میں دوسرے شعرا کی تظمین و اشعار ملا کر پڑھا ہے۔
آواز کسی کی ہے یہ بربط کی نہیں ہے
اس پردے میں پوشیدہ کوئی ماہ جبیں ہے
خشک تار و خشک چوب و خشک پوست
از کجا می آید ایں آوازِ دوست
اس پردے میں کوئی پوشیدہ ماہ جبیں ہے
سوکھی لکڑی سوکھا تار اور سوکھا پوست
یہ کہاں سے آتی ہے آواز دوست
اس پردے میں پوشیدہ کوئی ماہ جبیں ہے
صانعِ ساز است اندر تا رد پوست
زیں سبب می آید ایں آواز دوست
اس پردے میں پوشیدہ کوئی ماہ جبیں ہے
کسانیکہ یزداں پرستی کنند
بر آوازِ دولاب مستی کنند
و ایں گونید- اس پردے میں پوشیدہ کوئی ماہ جبیں ہے
شور منصور از کجاؤ دار منصور از کجا
اس پردے میں پوشیدہ کوئی ماہ جبین ہے
قم باذنی اور انا الحق کیا کہے ان کی مجال
اس پردے میں پوشیدہ کوئی ماہ جبیں ہے
گرچہ قرآن از لبِ پیغمبر است
ہر کہ گوید حق نہ گفت او کافر است
اس پردے میں پوشیدہ کوئی ماہ جبیں ہے
کی ہیں خدا نے باتیں گویا ہمارے منہ سے
اس پردے میں پوشیدہ کوئی ماہ جبیں ہے
صوفیوں کو وجد میں لاتا ہے نغمہ ساز کا
ہے یقیں اس پردے سے ان کو تری آواز کا
اس پردے میں پوشیدہ کوئی ماہ جبیں ہے
جانتا پہچانتا ہوں پردہ داری ساز کی
ہے شناسائی ازل سے مجھ کو اس آواز کی
اس پردے میں پوشیدہ کوئی ماہ جبیں ہے
سنتے تھے کہ اس یار کا گھر عرش بریں ہے
دیکھا جو وہاں جا کے مکاں ہے نہ مکیں ہے
شنیدہ کے بود مانند دیدہ
دیکھا جو وہاں جا کے مکاں ہے نہ مکیں ہے
وہاں نہ درد نہ دکھ ہے علاج ہے نہ دوا
وہاں ضرورتِ لقماں نہ حاجتِ بقراط
دیکھا جو وہاں جا کے مکاں ہےنہ مکیں ہے
آنجا نہ درد و نے صفا آنجا دردو نے دو آنجا نہ خوف ونے رجا
دیکھا جو وہاں جا کے مکاں ہے نہ مکیں ہے
نے آسمان ونے زمیں نے عرش و نے روح الامیں
دیکھا جو وہاں جا کے مکاں ہے نہ مکیں ہے
تم خود سے گذرجاؤتو طے ہو گئی منزل
وہ چرخِ بریں پر ہے نہ وہ زیر زمیں ہے
قولِ نیاز بشنو یعنی زخود بروں شو
چوں از خودی بر آئی باشی خدا رسیدہ
تم خود سے گذر جاؤ تو طے ہوگئی منزل
خدا سے ملنے بندےکو کہیں جانا نہ آنا ہے
خودی کو اپنی گم کرکے خدا کو خود میں پانا ہے
تم خود سے گذر جاؤ تو طے ہوگئی منزل
دع نفسک و تعال
تم خود سےگذر جاؤ تو طے ہوگئی منزل
یک قدم بر نفسِ خود نہ واں دگر ور کوئے دوست
تم خود سے گذر جاؤ تو طے ہوگئی منزل
بازار ترا ہم نے کیا گرم دکاں پر
بے سود ہے سودا جو خریدار نہیں ہے
میں اگر گنہ نہ کروں تو پھر تجھے یا غفور پکارے کون
بے سود ہے سودا جو خریدار نہیں ہے
جب نہ ہم محتاج تھے تم بھی نہ تھے حاجت روا
ہم سے ہے جو د و کرم جب ہم نہیں تو تم نہیں
بے سود ہے سودا جو خریدار نہیں ہے
پوچھی خبر یار جو دل سے تو کہا ہاں
تم ہی تو ہو وہ تم کو خبر کچھ بھی نہیں ہے
بتلاشِ یار تاکے رگ جان و دل خراشی
نظرے بروئے خود کن کہ رسی منال خود را
تم ہی تو ہو وہ تم کو خبر کچھ بھی نہیں ہے
جب سوال وصل کرتا ہوں یہ ملتا ہے جواب
تم یہی تو ہو وہ تم کو خبر کچھ بھی نہیں ہے
تو خود محبوب خود ہستی دگر از ما چہ می خواہی
تو خود گو ہر بکف داری تو از دریا چہ می خواہی
تم ہی تو ہو وہ تم کو خبر کچھ بھی نہیں ہے
مازاغ کا سرمہ ہے اور آنکھیں بھی کھلی ہیں
بازار میں بیٹھا ہے مگر گوشہ نشیں ہے
پئے پردہ نظر میں بسگیا نورِ نظر بن کر
سرِ بازار بے پردہ اسے پردہ نشیں دیکھا
بازار میں بیٹھا ہے مگر گوشہ نشیں ہے
میں گرم سفر لاکھوں برس سے ہوں و لیکن
اٹھا نہ قدم راز جہاں تھا سو وہیں ہے
الاٰن کما کان
اس سیر کا طریق ہی دنیا سے جدا ہے، بیٹھا ہوا
وطن میں بھی سالک سفر میں ہے لیکن
اٹھا نہ قدم راز جہاں تھا سو وہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.