جو وہ مدعی سے خفا ہو رہا ہے
تو دل کا مرے مدعا ہو رہا ہے
صبح وصل محشر بپا ہو رہا ہے
مرا مجھ سے دلبر جدا ہو رہا ہے
میری جاں شب وصل عاشق کے حق میں
ترا کوسنا بھی دعا ہو رہا ہے
شب وصل چھیڑا تو شرما کے بولے
بڑا آج تو بے حیا ہو رہا ہے
شب ہجر بیزار ہو زندگی سے
مرا دل بھی مجھ سے خفا ہو رہا ہے
جنازے پہ میرے جو لوگوں کو دیکھا
تو گھبرا کے پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے
میری لاش پہ آ کے غیروں سے بولے
یہ ہے کون اور اس کو کیا ہو رہا ہے
مرض عشق بڑھ گیا ہے طبیبو
مرا درد اب لا دوا ہو گیا ہے
رسائی دربار تک ہو تو کیوں کر
مقدر ہی جب نارسا ہو رہا ہے
شب غم میں ہمدم نہیں کوئی شیدا
مرا دل ہی مجھ سے خفا ہو رہا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.