خدا جانے مرے دستِ ہوس کا کیا ارادہ ہے
خدا جانے مرے دستِ ہوس کا کیا ارادہ ہے
شب خلوت جو یوں ان کی طرف رہ رہ کے بڑھتا ہے
غضب ہے مدعی میری تمنا کا وہ بن بیٹھے
جسے یہ بھی نہیں معلوم میرا مدعا کیا ہے
نصیبوں سے تو ملتا ہے ہمیشہ بے حجابانہ
جو پردہ ہی تو اس پردہ نشیں کا ہم سے پردا ہے
جوانی آنے والی ہے اگر اس شوخ کم سن کی
تو اس بیتاب کو بھی فکر اظہارِ تمنا ہے
ٹھہرتا ہی نہیں اس دور افتادہ کے ہاتھوں میں
خدا جانے یہ خط کس چلبلے نے مجھ کو لکھا ہے
بت جادو بیان نے ہائے پوچھا کس محبت سے
مرے وحشی بتا تو کس پری کا تجھ کو سودا ہے
مدد اے آرزوئے دشت پیمائی کہ زنداں ہے
سلاسل توڑ کر اپنے یہ وحشی اب نکلتا ہے
کرم کے بعد انداز ستم ہرگز نہیں زیبا
ہمارا آشنا نا آشنا کاہے کو بنتا ہے
ترے بانکے جو ان کے قافیوں کی اے حجابؔ اب تو
وہ ترچھی چتونوں والا بھی تجھ کو داد دیتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.