Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

دہلی تو دلہن بنی دولہا نظام الدین

نا معلوم

دہلی تو دلہن بنی دولہا نظام الدین

نا معلوم

MORE BYنا معلوم

    آفتابِ رسالت مدینہ میں ہیں

    دہلی تو دلہن بنی دولہا نظام الدین

    سارے ہند کے بادشاہ خواجہ معین الدین

    سبزِ گنبد کا منظر ہے پیشِ نظر

    یادِ طیبہ کی آتی ہے اجمیر میں

    آفتابِ رسالت مدینہ میں ہیں

    اور کرن جگمگانی ہے اجمیر میں

    میرے خواجہ کا نورانی گنبد

    چاندنی میں نہایا ہوا ہے

    سادہ سادہ سا روضہ کا منظر

    ہر نظر میں سمایا ہوا ہے

    نامِ خواجہ میں ایسی کشش ہے

    اک زمانے میں چھایا ہوا ہے

    بھرلی اس نے مرادوں کی جھولی

    جس پہ دامن کا سایہ ہوا ہے

    آپ کی سمت اٹھتی ہے جو بھی نظر

    مدعا اپنا پاتی ہے اجمیر میں

    آپ سلطانِ ہند خواجۂ خواجگان

    آپ بیشک ہیں سب کے لئے مہرباں

    روز بنتے ہیں بگڑے مقدر یہاں

    چشمۂ فیض ہے آپ کا آستاں

    در پہ آئیں نہ دیوانے کیوں سر کے بل

    جب عقیدت بلاتی ہے اجمیر میں

    در پہ ایک بانجھ عورت نے کی التجا

    میرے اولاد ہوجائے تو باخدا

    خواجہ بچے کو چوکھٹ پہ لاؤں گی میں

    دیگ اجمیر آکر چڑھاؤں گی میں

    رب سے خواجہ اس کے لئے کی دعا

    ہوگیا پورا اس کا جو یہ مدعا

    لے کے بچے کو آئی وہ اجمیر میں

    حادثہ اس پہ گذرا یہ کچھ دیر میں

    ساتھ اس کے سہیلی تھی آئی ہوئی

    جب چڑھی دیگ تو پاس تھی وہ کھڑی

    گود میں اس کے بچہ تھا ہنستا ہوا

    دیگ میں گود سے وہ اچھل کر گرا

    رو پڑی کہہ کے وہ ہائے بچہ میرا

    رکھیو لاج دکھیا کی خواجہ پیا

    صاحب جی سلطان جی تم بڑے غریب نواز

    اپنی کرکے رکھیو سو باہیں پکڑے گی لاج

    شبیر و شبر کے لئے معصومِ اصغر کے لئے

    سجدے میں سر کٹ گیا اس سر کے لئے

    محمد پر جو اترا ہے اسی قرآن کا صدقہ

    اپنے پیرومرشد خواجہ عثمان کا قصدقہ

    خواجہ جی ان چوڑیوں کی لاج پیا رکھنا

    یہ تو پہن لیں اب نہ اترنی

    مورا بھاگ سہاگ تمہیں سے ہے

    جو دعاؤں سے خواجہ کی پیدا ہوا

    دیگ اس کو جلاتی بھلا کس طرح

    آج اس پر نہ آئی خدا کی قسم

    رکھ لیا میرے خواجہ نے اس کا بھرم

    میرے خواجہ کی ادنیٰ کرامت ہے یہ

    جو نظر روز آتی ہے اجمیر میں

    چشمِ رحمت سے جس دم اشارہ ہوا

    ڈوبتی کشتیوں کو کنارہ ملا

    آپ نے بیکسوں کو سہارا دیا

    چشمِ نور کو بھی نظارہ دیا

    بھوکے پیاسوں پہ ایسی نگاہِ کرم

    روز جاری ہے لنگر خدا کی قسم

    کیوں نہ مہکے بھلا فیض کا گلستاں

    خوشبو طبیبہ سے آتی ہے اجمیر میں

    مأخذ :
    • کتاب : Pakistani Qawwalian (Pg. 2)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے