وہ جب سے خرمن مسرتوں کا جلا گئے بجلیاں گرا کے
وہ جب سے خرمن مسرتوں کا جلا گئے بجلیاں گرا کے
سنبھالے بیٹھا ہوں خاک دل کی ہزاروں چنگاریاں دبا کے
بڑے مزے سے گزر رہی تھی یہ کیا کیا دیدہ ور بنا کے
ادھر تو آؤ بلائیں لے لوں کہاں چلے خاک میں ملا کے
تمام عزت ہے آپ ہی کی یہ چھیڑا پنے گدا سے کیسی
نہ دیکھیے یوں مرا تماشہ حضور اب ٹھوکریں کھلا کے
جناب زاہد یہ مے کدہ ہے ادھر کا رخ تم نے کیوں لیا ہے
نہ جانے کتنوں نے ہار مانی نگاہ ساقی کی شہہ میں آکے
خبر تو لو کس کی ہے یہ شوخی کہ ایک بجلی سی دل میں چمکی
نفس کی راہوں سے چل دیا ہے ابھی کوئی میرے گدگدا کے
سبک نگاہی کے داغ سے تو یہ حسرت دید ہی بھلی ہے
ہم اپنا خود اعتبار کھوتے کسی کے آگے نظر اٹھا کے
کسی کی محفل میں کیا بتائیں دماغ اپنا کہاں تھا آخر
ہماری دنیا ہی اور کچھ تھی جو اس نے دیکھا تھا مسکرا کے
عجب نہیں ہے یہی ادائیں جنوں کے پھر حوصلے بڑھائیں
ذرا سا دامن کو چھو لیا تھا جھٹک دیا تم نے ادبدا کے
سمٹ کے سب آ گئی ہے یا رب کہاں سے یہ کائنات مجھ میں
کہاں کہاں سے گزر رہاں ہوں نظر سے ان کی نظر ملا کے
اگر تمہیں یار مل چکا ہے تو پھر حرم ہے نہ بت کدہ ہے
غلاف کعبہ پہ جاکے ڈالو بتوں کو رکھو کہیں اٹھا کے
نہ جانے کاملؔ کو کیا ہوا ہے تمہارے قدموں پہ لوٹتا ہے
بڑا ہی گستاخ کر دیا ہے حضور نے اس کیا منہ لگا کے
- کتاب : سرودِ روحانی (Pg. 276)
- اشاعت : Second
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.