یار کاں کاں نہ پھرا دہر میں کیا کیا بن کر
یار کاں کاں نہ پھرا دہر میں کیا کیا بن کر
آخرش بیٹھ گیا خاک کا پتلا بن کر
رہ گیا تھا جو عدم میں مرا نقشہ بن کر
آیا اب عالم ایجاد میں خاکہ بن کر
ڈھونڈے اسرار خدا دل نے جو اندھا بن کر
رہ گیا آپ ہی پہلو میں معمہ بن کر
دیکھ لو خوب مجھے آیا ہوں ایسا بن کر
پھر یہ فرمائے کوئی جاؤں گا کیسا بن کر
بن گیا زخم جگر دیدۂ بینا بن کر
داغ دل چمکا مرا عرش کا تارا بن کر
جس نے دیکھا مجھے حیرت سے وہ منہ تکتا رہا
میں بھی آیا ہوں جو دنیا میں تماشہ بن کر
بے بہانے کے اگر ہے تمہیں آنے میں لحاظ
یہ لو ہم مرتے ہیں تم آؤ مسیحا بن کر
دم خفتن تھا کسی رنگ تلائی کا خیال
اڑ گئی نیند میری سونے کی چڑیا بن کر
میں سمجھتا تھا عبادت کو ہی اسباب نجات
آتی ہے سامنے ہر دم میرے دنیا بن کر
علویؔ چھٹتا نہیں جب تک کہ نہ اشتر تیرا
آئے گا سوئی کے ناکے میں نہ دھاگہ بن کر
- کتاب : سرودِ روحانی (Pg. 323)
- اشاعت : Second
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.