پیامِ زیرِ لب ایسا کہ کچھ سنا نہ گیا
اشارہ پاتے ہی انگڑائی لی، رہا نہ گیا
ہنسی میں وعدۂ فردا کو ٹالنے والو
لو دیکھ لو، وہی ”کل“ ”آج” بن کے آ نہ گیا؟
خراب پھرتا ہے دیوانہ کیوں بگولا سا؟
زمیں میں صورتِ آبِ رواں سما نہ گیا؟
پکارتا رہا کس کس کو ڈوبنے والا
خدا تھے اتنے مگر کوئی آڑے آ نہ گیا؟
سمجھتے کیا تھے ؟ مگر سنتے تھے ترانۂ درد
سمجھ میں آنے لگا جب تو پھر سنا نہ گیا !
کروں تو کس سے کروں، درد، نارسا کار گلہ
کہ مجھ کو لے کے دلِ دوست میں سما نہ گیا !
کہاں کا خندۂ بیجا کہاں کی زندہ دلی
کسی پہ ہنس لیے اتنا کہ پھر ہنسا نہ گیا !
بتوں کو دیکھ کے سب نے خدا کو پہنچانا
خدا کے گھر تو کوئی بندۂ خدا نہ گیا !
کرشن کا ہوں پجاری، علی کا بندہ ہوں
یگانہ شانِ خدا دیکھ کر رہا نہ گیا
مأخذ :
- کتاب : Nairang-e-Khayaal (Pg. 171)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.