یہ کہاں لگی یہ کہاں لگی کہ قفس سے آج دھواں اٹھا
دلچسپ معلومات
(صبح امید لکھنو دسمبر۱۹۱۹ ء)
جلے آشیانے جو دل کی طرح چمن سے شور فغاں اٹھا
یہ کہاں لگی یہ کہاں لگی کہ قفس سے آج دھواں اٹھا
کوئی مست مے کدہ آ گیا مے بے خودی پلا گیا
نہ صدائے نغمۂ دیر اٹھے نہ حرم سے شور اذاں اٹھا
لگی آگ میرے جگر میں یوں نہ لگے کسی کے بھی گھر میں یوں
نہ تو لو اٹھی نہ شرر اٹھے نہ چمک اٹھی نہ دھواں اٹھا
تجھے مے فروش خبر بھی ہے یہ مقام کیا ہے یہ کیا ہے شے
یہ رہ حرم میں دکان مے تو یہاں سے اپنی دکاں اٹھا
گئے ساتھ شیخ حرم کے ہم نہ ملا کوئی نہ لیے قدم
نہ تو خم بڑھا نہ سبو جھکا جو اٹھا تو پیر مغاں اٹھا
لب خم سے نکلے صدائے قم سردوش ایسے ہزار خم
خم آسماں بھی ہو جس میں گم وہ سیاہ ابر کہاں اٹھا
یہ سپید ریش ریاضؔ ہے جو بنا ہے بزم میں وعظ گو
اسے کیوں نہ ابر سیاہ کہوں کہ برس پڑا یہ جہاں اٹھا
- کتاب : تذکرہ شعرائے وارثیہ (Pg. 104)
- مطبع : فائن بکس پرنٹرس (1993)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.