مکتوب نمبر ۱
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میرے ولی محب، میرے قلبی دوست، میرے بھائی خواجہ قطب الدین دہلوی! اللہ تعالیٰ آپ کا دونوں جہاں کی سعادت عطا فرمائے۔
بندۂ مسکین معین الدین کی طرف سے سلام مسنونہ کے بعد واضح ولائح ہو کہ جو اسرارِ الٰہی کے چند ایک نکات میں لکھتا ہوں، یہ اپنے سچے مریدوں اور حق کے طالبوں کو سکھا دینا تاکہ وہ غلطی میں نہ پڑیں۔
عزیز من ! جس نے اللہ تعالیٰ کو پہچان لیا ہے وہ کبھی سوال یا خواہش یا آرزو نہیں کرتا جس نے ابھی تک نہیں پہچانا وہ ان کی بات کو نہیں سمجھ سکتا، دوسرا یہ کہ حرص و ہوا کو ترک کرو جس نے حرص و ہوا کو ترک کیا، اس نے مقصود حاصل کر لیا۔
چنانچہ ایسے شخص کے بارے میں اللہ تعالیٰ شانہ نے فرمایا ہے کہ ونھی النفس عن الھون فان الجنۃ ھی الماوی (پ30، آیت 4) وہ جس شخص نے اپنے نفس کو خواہشات سے روک رکھا اس کا ٹھکانہ بہشت ہے۔
جس دل کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے پھیر دیا ہے، اسے کثرتِ شہوات کے کفن میں لپیٹ کر زمین میں دفن کر دیا ہے۔
ایک روز سلطان العارفین خواجہ با یزید نے فرمایا کہ میں نے ایک رات اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا جس نے مجھ سے پوچھا کہ با یزید کیا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا جو تو چاہتا ہے، خطاب ہوا کہ اچھا جس طرح تو میرا ہے اسی طرح میں تیرا ہوں۔
ہر کہ گردن نہد رضا او را
مرا حق نگاہباں باشد
پس اگر تصوف کی ماہیت سے واقف ہونا چاہتے ہو تو اپنے پر آسائش کا دروازہ بند کردو پھر زانوئے محبت کے بل بیٹھ جاؤ اگر تم نے یہ کام کر لیا تو سمجھو کہ بس تصوف کے عالم ہوگئے، طالب حق کو یہ بات جان و دل سے بجا لانی چاہیے، ان شاء اللہ تعالیٰ ایسا کرنے سے وہ شر شیطانی سے نجات پائے گا اور دونوں جہان کی مرادیں حاصل کرے گا۔
ایک روز میرے شیخ صاحب علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ معین الدین ! کیا تجھے معلوم ہے کہ صاحبِ حضور کسے کہتے ہیں ؟ دیکھو صاحبِ حضور وہ ہے کہ ہر وقت مقامِ عبودیت میں ہو اور ہر ایک واقع کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیال کرے اور تمام عبادتوں کا مقصد یہی ہے جسے یہ حاصل ہے وہ جہان کا بادشاہ ہے بلکہ جہان کا بادشاہ اس کا محتاج ہے، ایک روز میرے شخص نے مجھے خطاب کر کے فرمایا کہ بعض درویش جو کہتے ہیں کہ جب طالب کمال حاصل کر لیتا ہے تو اسے گھبراہٹ رہتی، یہ غلط ہے، دوسرے یہ کہ جو کہتے ہیں کہ عبادت کرنا بھی اس کے لیے ضروری نہیں ہوتا یہ بھی غلط ہے کیونکہ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ہمیشہ عبادت بندگی اور عبودیت میں سر بسجود رہے، باجود کمال بندگی کے آخر یہ فرمایا کرتے تھے ماعبدناک حق عبادتک (ہم نے تیری ایسی عبادت نہیں کی جیسا کہ حق تھا) یعنی کما حقہ تیری عبادت نہیں کرسکتے اور نہایت عاجزی سے ورد زبان تھا، اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ، میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا بندہ اور بھیجا ہوا ہے۔
پس یقین جانو کہ جب عارف کمال کا درجہ حاصل کرتا ہے تو اس وقت کمال درجہ کی ریاضت جس سے مراد نماز ہے، نہایت صدق دل سے ادا کرتا ہے، اسی سے حضوری و آگاہی زیادہ حاصل ہوتی ہے بلکہ احض الخاص معراج یہی نماز ہے، جب کوئی شخص یہ معلوم کر کے صدق سے کام لیتا ہے تو اسے ایسی پیاس محسوس ہوتی ہے، گویا اس نے آگ کے کئی پیالے پی رکھے ہیں، جوں جوں ایسے پیالے پیئے گا، پیاس غلبہ کرتی جائے گی، اس واسطے کو جمال نا متناہی کی انتہا نہیں، اس وقت اس کا سکون بے سکونی اور آرام بے آرامی ہوجاتی ہے تا وقتیکہ لقائے الٰہی سے مشرف نہ ہوجائے۔ والسلام
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.