مکتوب نمبر؍۵
دلچسپ معلومات
خواجہ معین الدین چشتی کے مکاتیب جو قطب الدین بختیار کاکی کے نام سے عوام میں منسوب ہیں، تاہم اہلِ تحقیق کے نزدیک یہ نسبت صحیح اور مستند نہیں مانی جاتی۔
واصلوں کے برگزیدہ، رب العالمین کے عاشق میرے بھائی خواجہ قطب الدین دہلوی!
ایک روز یہ دعا گو حضرت خواجہ عثمان ہارونی کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص نے آکر عرض کیا کہ شیخ صاحب میں نے مختلف علوم حاصل کئے، بہت زہد کیا لیکن مقصد نہیں پایا، خواجہ صاحب نے فرمایا تمہیں صرف ایک بات پرعمل کرنا چاہیے، عالم بھی ہوجاؤ گے اور زاہد بھی وہ یہ کہ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا کہ
”ترک الدنیا راس کل عبادۃ و حب الدنیا راس کل خطیئۃ“
ترجمہ : دنیا کا ترک کرنا تمام عبادتوں کا سر ہے اور دنیا کی محبت تمام خطاؤں کی جڑ ہے۔
اگر تم اس حدیث پر عمل کرو تو پھر تمہیں کسی اور علم کی ضرورت نہ رہے یعنی ’’العلم نکۃ‘‘ گو علم ایک ہی نقطہ ہے لیکن اس کا کہہ لینا آسان ہے مگر اس پر عمل کرنا مشکل ہے۔
پس یقین جانو کہ ترک اس وقت تک حاصل انہیں ہو سکتی جب تک محبت بدرجۂ کمال نہ ہو اور محبت اس وقت پیدا ہوتی ہے جس اللہ تعالیٰ ہدایت کرے، حق تعالیٰ کی ہدایت کے بغیر مقصود حاصل نہیں ہوسکتا۔
’’من یھداللہ فھو المھتد‘‘
ترجمہ : جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے وہی ہدایت پا سکتا۔
پس انسان کو لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کا لحاظ کر کے اپنے وقت عزیز و شریف کو دنیاوی خواہشات کے پورا کرنے میں ضائع نہ کرے بلکہ وقت کو غنیمت سمجھ کو فقر و فاقہ میں عمر بسر کرے، عجز و زاری سے پیش آئے، گناہوں کی شرمندگی کے مارے سر نہ اٹھائے ہر حالت میں عاجزی اور تضرع سے پیش آئے کیوں کہ انس، بندگی اور عبادت اور سب سے اچھا کام یہی عجز و نیاز ہے۔
بعد ازاں اس موقع کے مناسب یہ حکایت بیان فرمائی کہ حضرت حاتم اصم خواجہ شفیق بلخی کے شاگرد اور مرید تھے، ایک روز شیخ صاحب نے پوچھا کہ کتنے عرصے سے تم میری محبت و خدمت میں سرگرم ہو اور میری باتیں سنتے آئے ہو؟ عرض کیا آٹھ فائدے حاصل کیے، پوچھا کیا اس سے پہلے یہ فائدے حاصل نہ تھے؟ عرض کیا شیخ صاحب اگر آپ سچ پوچھتے ہیں تو ان سے زیادہ کی اب مجھے ضرورت بھی نہیں، فرمایا کہ ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘
حاتم! میں نے ساری عمر تیرے کام میں صرف کر دی، میں نہیں چاہتا کہ تو اس سے زیادہ حاصل کرے، عرض کیا میرے لیے اتنا ہی علم کافی ہے کیوں کہ دونوں جہاں کی نجات ان فائدوں میں آ جاتی ہے، فرمایا کہ اچھا انہیں بیان کرو؟
عرض کیا کہ استاد صاحب!
پہلا یہ ہے کہ میں نے خلقت کو غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ ہر ایک شخص نے کسی نہ کسی کو اپنا محبوب و معشوق قرار دیے رکھا ہے، وہ محبوب و معشوق اس قسم کے ہیں کہ بعض مرض موت تک اس کے ساتھ رہتے ہیں، بعض مرنے تک، بعض لب گور تک اس کے بعد کوئی بھی ساتھ نہیں جاتا، کوئی ایسا نہیں کہ انسان کے ساتھ قبر میں جا کر اس کا غم خوار اور اس کا چراغ ہو، قیامت کی منزلیں طے کرائے، مجھے معلوم ہوا کہ ان صفات سے متصف محبوبِ صرف اعمال صالحہ ہیں، سو میں نے انہیں اپنا محبوب بنایا اور انہیں اپنے لیے حجت اختیار کیا تاکہ قبر میں بھی میری غم خواری کریں۔
میرے لیے چراغ ہوں اور ہر ایک منزل میں میرے ساتھ رہیں اور مجھے چھوڑ نہ جائیں، خواجہ شفیق بلخی نے فرمایا کہ حاتم ! تو نے بہت اچھا کیا۔
دوسرا یہ کہ جب میں نے لوگوں کو غور سے دیکھا تو معلوم کہ سب کے ساتھ حرص و ہوا کے پیرو بنے ہوئے ہیں اور نفس کے کہنے پر چلتے ہیں پھر میں نے اس آیت پر غور کیا کہ
’’و اما من خاف مقام ربہ و نھی النفس عن الھوی، فان الجنۃ ھی الماوی‘‘ (پ 30 ع4)
ترجمہ : جس نے اللہ تعالیٰ سے ڈر کر نفس کو خواہشات سے روکا، اس کا ٹھکانہ بہشت ہے۔
تو یقین ہوگیا کہ قرآن شریف سچا ہے، اس لیے میں نفس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگیا اور اسے مجادہ کی کٹھالی پر رکھ دیا، اس کی آرزو بھی پوری نہ کی، صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے مجھے آرام حاصل ہوتا رہا۔
خواجہ شفیق بلخی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تجھے اس میں برکت دے، تو نے خوب کہا اور اچھا کیا۔
تیسرا فائدہ یہ کہ جب میں لوگوں کے حالات کا مشاہدہ غور سے کیا، تو دیکھا کہ ہر شخص دنیا کے لیے کوشش کرتا ہے، رنج و مصیبت و برادشت کرتا ہے، تب کہیں دنیاوی حکام سے کچھ حاصل ہوتا ہے اور پھر اس پر بڑا خوش و خرم رہتا ہے، بعد ازاں میں نے اس آیت پر غور کیا کہ
’’ما عندکم ینفد وما عنداللہ باق‘‘ (پ 14 ع 19)
ترجمہ : جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہو جانے والا ہے اور جو اللہ کے ہاں ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔
تو جو کچھ میں نے جمع کیا تھا سب راہِ خدا میں صرف کر دیا اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا تاکہ بارگاہِ الٰہی میں باقی رہے اور آخرت میں میرا توشہ اور بدرقہ بنے۔
خواجہ شفیق بلخی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تجھے برکت دے تو نے بہت اچھا کیا ہے۔
چوتھا یہ کہ جب میں نے خلقت کے حالات کو غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ بعض لوگوں نے آدمی کا عز و شرف اور اس کی بزرگی کثرت اقوام کو سمجھ رکھا ہے اور اس پر وہ فخر کرتے ہیں، بعض نے سمجھ رکھا ہے کہ مال و اولاد پر عزت کا انحصار ہے اور اس کا مایۂ فخر خیال کرتے ہیں، بعد ازاں میں نے اس آیت کریمہ پر خیال کیا کہ
’’ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم‘‘
ترجمہ : تم میں سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑھ کر وہی معزز سمجھا جائے گا جو سب سے زیادہ متقی ہوگا۔
تو معلوم ہوا کہ بس یہی ٹھیک اور حق ہے اور جو کچھ لوگوں نے خیال کر رکھا ہے وہ سراسر غلط ہے، سو میں نے تقویٰ اختیار کیا تاکہ میں بھی بارگاہِ الٰہی کا مکرم بن جاؤں۔
خواجہ شفیق بلخی نے فرمایا کہ تو نے بہت اچھا کیا۔
پانچواں یہ کہ میں نے جب لوگوں کے حالات کو غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک دوسرے کو محض حسد کی وجہ سے بڑائی سے یاد کرتے ہیں اور حسد بھی مال مرتبے اور علم کا کرتے ہیں پھر میں نے اس آیت پر غور کیا کہ
’’قسمنا بینھم معیشتھم فی الحیوۃ الدنیا‘‘ (پ 25 ع 9)
ترجمہ : ہم نے ان میں دنیاوی زندگی کے لیے روزہ وغیرہ تقسیم کی۔
تو جب ازل میں ان کے حصے یہ چیز آ چکی ہے اور کسی کا اس میں اختیار نہیں تو پھر حسد بے فائدہ ہے، تب سے میں نے حسد کرنا چھوڑ دیا ہے اور ہر ایک سے صلح اختیار کی۔
خواجہ شفیق بلخی نے فرمایا کہ تو نے بہت اچھا کیا۔
چھٹا یہ کہ جب دنیا کو غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ بعض آپس میں دشمنی رکھتے ہیں اور کسی خاص کام کے لیے ایک دوسرے سے لاگ بازی کرے ہیں پھر میں نے اس آیت کو غور سے دیکھا۔
”ان الشیطان لکما عدو مبین“ (پ 8 ع 9)
ترجمہ : شیطان تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے۔
تو مجھے معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کا کلام بالکل سچا ہے، واقعی ہمارا دشمن شیطان ہے، شیطان کی پیروی نہیں کرنی چاہیے، تب سے میں صرف شیطان کو اپنا دشمن جانتا ہوں، نہ اس کی پیروی کرتا ہوں نہ فرماں برداری بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لاتا ہوں، اس کی بزرگی کرتا ہوں اور ٹھیک بھی یہی ہے، چنانچہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کہ
’’الم عھد الیکم یبنی اٰدم ان لاتعبد الشیطان انہ لکم عدو مبین وان اعبدونی ھذا صراط مستقیم‘‘ (پ 23 ع 3)
ترجمہ : اے نبی آدم ! کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی پیروی و پرستش نہ کرنا کیوں کہ وہ تمہارا کھل کھلا دشمن ہے، اگر تم میری پرستش کرو، تو یہ سیدھی راہ ہے۔
خواجہ شفیق بلخی نے فرمایا کہ تم نے بہت خوب کیا۔
ساتواں یہ کہ جب میں نے خلقت کو غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ ہر شخص اپنی روزی و معاش کے لیے سر توڑ کوشش کرتا ہے اور اسی وجہ سے حرام و شبہ میں پڑتا ہے اور اپنے آپ کو ذلیل کرتا ہے پھر میں نے اس آیت کو غور سے دیکھا کہ
’’وما من دابہ فی الارض الا علی اللہ رزقھا‘‘ (پ 12 ع 1)
ترجمہ : روئے زمین پر کوئی ایسا حیوان نہیں جس کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمے نہ ہو۔
تو سمجھ گیا کہ اس کا فرمان حق ہے، میں بھی ایک حیوان ہوں، تب سے میں اللہ تعالیٰ کی خدمت میں مشغول ہوگیا اور مجھے یقین ہوگیا کہ میری روزی وہ بالضرور پہنچائے گا کیوں کہ وہ خود اس بات کا ضامن ہے۔
خواجہ شفیق بلخی نے فرمایا کہ تو نے بہت اچھا کیا، اب آٹھواں فائدہ بیان کر، عرض کیا۔
آٹھواں یہ ہے کہ جب میں نے خلقِ خدا کو غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ ہر شخص کو کسی نہ کسی چیز پر بھروسہ ہے، بعض کو سونے چاندی پر، بعض کو ملک و مال پر پھر میں نے اس آیت کو غور سے دیکھا کہ
’’من یتوکل علی اللہ فھو حسبہ‘‘ (پ 8 ع 17)
ترجمہ : جو شخص اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ اس کے لیے کافی ہوتا ہے۔
تب سے میں نے اللہ تعالیٰ پر توکل کیا، وہ مجھے کافی ہے اور میرا عمدہ وکیل ہے۔
خواجہ شفیق بلخی نے فرمایا کہ حاتم ! اللہ تعالیٰ تمہیں ان باتوں پر عمل کی توفیق دے، میں نے توریت، انجیل، زبور، فرقان کا غور سے مطالعہ کیا تو ان چاروں کتابوں سے یہی آٹھ باتیں حاصل ہوئیں جو ان پر عمل کرتا ہے گویا ان چاروں کتابوں پر عمل کرتا ہے۔
اس حکایت سے تجھے معلوم ہوگیا کہ زیادہ علم کی نہیں بلکہ عمل کی ضرورت ہے۔
والسلام
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.