Sufinama

راحت القلوب، پانچویں مجلس :- رسم مقراض رانی

بابا فرید

راحت القلوب، پانچویں مجلس :- رسم مقراض رانی

بابا فرید

MORE BYبابا فرید

    دلچسپ معلومات

    ملفوظات : بابا فریدالدین مسعود گنج شکر جامع : نظام الدین اؤلیا

    9 شعبان روز پنجشنبہ 655 ھجری

    دولتِ قدم بوسی حاصل ہوئی۔

    شیخ جمال الدین ہانسوی حاضرِ خدمت تھے اور بال کترنے پر بحث ہورہی تھی، ارشاد ہوا میں نے سیرالعارفین میں پڑھا ہے کہ جب کوئی مسلمان چاہے کہ کسی پیر کا مرید ہو تو اول غسل کرے اور اگر ہوسکے تو رات بھر جاگے اور اپنی بھلائی کے لئے حضرتِ حق میں ملتجی رہے، اگر یہ ممکن نہ ہو تو خیر، جمعرات کے دن چاشت کے وقت یا دو شنبے کو سب دوستوں اور عزیزوں کو جمع کرکے پِیر کے پاس جائے پھر پیر قبلہ رو ہوکر بیٹھے اور دو رکعت استخارہ پڑھے، اس کے بعد مرید کو سامنے بٹھا کر آیاتِ متبرکہ پڑھے اور اس پر پھونکے اور مرید سے استغفار کرائے اور مستقبلِ قبلہ بیٹھا کر قینچی ہاتھ میں لے اور تین مرتبہ بآواز تکبیر کہے۔

    رسمِ مقراض رانی

    قینچی چلانے کے متعلق مشائخ میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ تکبیرپڑھتے وقت نفسِ امارہ کی طرف متوجہ ہو اور سمجھے کہ آج اس سے جنگ کرنی ہے، بالکل وہی حالت ہو جیسی ایک غازی لشکر اسلام کی لڑائی کے وقت ہونی چاہئے (تکبیر بالجہر سے مدد کے لئے فرشتے اتر آتے ہیں) پھر لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم پڑھے اور کوئی وسوسہ نہ آنے دے، تیسری تکبیر سے فارغ ہوکر ایک بار کلمۂ توحید اور بیس دفعہ درود شریف اور ایک دفعہ استغفار پڑھے جب سب کچھ ہو چکے تو ایک بال مرید کی پیشانی سے لے لے اور کہے ’’بادشاہوں کے بادشاہ ! تیری درگارہ سے بھاگا ہوا غلام پھر تیرے حضور میں آیا ہے اور چاہتا ہے کہ تیری عبادت کرے اور جو کچھ ماسوا ہے اس سے بیگانہ ہوجائے، اس کے بعد ایک بال پیشانی کی دائیں طرف سے اور ایک بائیں طرف سے کترے۔

    دوسرا گروہ کہتا ہےکہ صرف ایک بال پیشانی سے لے لے زیادہ کی ضرورت نہیں، حسن بصری امیرالمؤمنین علی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک ہی بال لینا بہتر ہے، حضرت علی اہل صفہ کے خلیفہ ہیں اور یہ حدیث اُن کی شان میں آئی ہے، انامدینۃ العلم وعلیّ بابہا۔ اس کے بعد دعاگو نے عرض کیا کہ حضور یہ قینچی چلانے کی رسم کہاں سے پیدا ہوئی؟ فرمایا حضرت ابرہیم سے (صلوٰ ات اللہ علیہ وعلیٰ نبینا) اور انہیں تلقین کیا تھا حضرت جبرئیل نے پھر اسی کے متعلق ارشاد فرمایا، ایک دن حبیب عجمی اور حسن بصری دونوں بیٹھے ہوئے تھے، کوئی شخص آیا اور بولا کہ میں فلاں فلاں کا مرید ہوں، آپ نے پوچھا تمہارے پیر نے تمہیں کیا تعلیم دی ہے؟ اُس نے کہا میرے پیر نے بال تو کترے تھے باقی تعلیم وغیرہ کچھ نہیں دی، دونوں بزرگوں نے چلاکر کہا ’’ہو مضل و ضال‘‘ یعنی وہ خود بھی گمراہ ہے اور اوروں کو بھی گمراہ کرتا ہے، اس واقعے سے معلوم ہوا کہ پیر کو چاہئے کہ مرید کرنے سے پہلے مرید کو جانچ لے، اُس کے بعد شیخ الاسلام نے تمام حاضرین سے خطاب کیا کہ شیخ ایسا ہونا چاہئے کہ جب کوئی اُس کے پاس بہ نیتِ ارادت آئے تو نورِ معرفت کی نظر سے ارادت مندکے سینے کو صیقل کرے تاکہ اُس میں کسی قسم کی کدورت باقی نہ رہے اور وہ مانند آئینے کے روشن ہوجائے اگر یہ قوت نہیں ہے تو مرید نہ کرے کیونکہ اس سے بیچارے گمراہ کو کیا حاصل ہوگا۔

    نفس امارہ، لوامہ اور مطمئنہ

    ارشاد ہوا جب کسی پیر یا صاحبِ ولایت کی مریدی کی خواہش کرے تو چاہئے کہ پہلے اُس کے نفوسِ ثلاثہ کی حرکات و سکنات پر غور کرے اور دیکھے کہ کہیں وہ پوشیدہ طورپر نفسِ امارہ کے قبضے میں تو نہیں ہے کیونکہ قرآنِ حکیم میں ہے، وما ابریٔ نفسی ان النفس لامارۃ بالسوء الخ پھر نفسِ لوامہ پر توجہ کرے کہ کہیں اُس میں تومبتلا نہیں، قرآن حکیم میں ہے کہ ولآ اقسم بالنفس اللوامۃ اس کے بعد نفس مطمئنہ پر نظر ڈالے؛ قال اللہ تعالیٰ یا ایتہا النفس المطمئنۃ ارجعی الیٰ ربک راضیۃ مرضیۃ پھر قلب کو دیکھے کہ وہ بھی سلیم ہے یا نہیں، اِن سب مرحلوں سے فارغ ہوکر اپنے ضمیر کو روشن کرے اور ہاتھ دے دے۔

    اگر کوئی شخص سنتِ اہلِ سلوک کے مطابق مقراض رانی اور مقراض گیری نہیں جانتا وہ گمراہ ہے اور اُس غریب کو بھی ضلالت میں ڈالتا ہے جو اُس کا مرید ہوتاہے، یہ جملہ کہہ کر شیخ الاسلام چشم پُرآب ہوگئے اور فرمانے لگے جس دن بشر حافی نے توبہ کی تھی اس روز کا قصہ ہے کہ آپ پشیمان ہوتے ہوئے خواجہ جنید بغدادی کی خدمت میں آئے اور اُن کے ہاتھ پر تائب ہوئے، حضرت نے رسمِ مقراض کے بعد آپ کو خرقہ عطا فرمایا، اُس کے بعد بشر حافی چلے آئے اور جب تک جئے برہنہ پا رہے، پوچھنے والے نے پوچھا خواجہ جوتی کیوں نہیں پہنتے؟ فرمایا میری مجال نہیں کہ بادشاہوں کے فرش پر جوتی پہن کر پھروں، ایک تو سبب یہ ہے، دوسرا بھی سن لیجئے، جس دن خدائے عزوجل سے معاملہ کیا ہے اُس روز ننگے پیر تھا، اِس لئے اب جوتی پہنتے ہوئے شرم آتی ہے، اُس کے بعد ارشاد ہوا کہ اہلِ سلوک کا قول ہےکہ جو شیخ مریدوں کو قانونِ مذہبِ سنت و جماعت پر نہیں چلاتا اور اپنی حالت کتاب اللہ اور سنتِ رسول کے موافق نہیں رکھتا وہ رہزن ہے، دھوئیں سے آگ کا پتہ چلتاہے اور مرید سے پیر کا، یہ جو بیسیوں آدمی گمراہی میں پڑے دکھائی دیتے ہیں پس اُس کی وجہ یہی ہے کہ اُن کا پِیر کامل نہیں ہے۔

    مقراض کا معاملہ ایک الٰہی رمز ہے جس کا انکشاف کسی پر نہ ہوا اگرچہ بعضوں نے مطلب بر آری کی ہے کہ اِس قینچی سے بندے اور مولیٰ کے درمیان جو پردے ہوتے ہیں وہ کٹ جاتے ہیں پھر فرمایا مومن کے دل کی درگاہِ خداوندی میں بڑی قدر و منزلت ہے لیکن لوگ اُس کی اصلاح نہیں کرتے، یقیناً وہ ضلالت اور گمراہی میں ہیں، رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قلب المومن عرش اللہ تعالیٰ، مومن کا دل اللہ تعالیٰ کا عرش ہوتا ہے، بعد ازاں ارشاد کیا کہ جس درویش کے آگے ابھی حجاب کے ۷۰ پردے پڑے ہوئے ہوں جس تک ذراسی روشنی نہ پہنچتی ہو جو مقراض اور خرقے کا علم نہ رکھتا ہو وہ اگر چاہے کہ لوگ اس کے مرید ہوں تو سمجھ لو گمراہ ہے اور دوسروں کو گمراہ کرتاہے، درویش کو عالم اور صاحبِ قوت ہونا چاہتے تاکہ مقراض چلانے اور خرقہ دینے میں اس سے کوئی فعل خلافِ سنت و جماعت نہ سر زد ہوجائے۔

    اس کے بعد فرمایا کہ خواجہ شفیق بلخی دلیل الشافی میں لکھتے ہیں جو فقیر خلق سے علیٰحدہ نہ رہتا ہو جان لو کہ وہ خدا سے دور ہے کیونکہ عوام کی صحبت فقیر کے لئے خالی از مضرت نہیں، اِس سے مالک مولیٰ کے راستے میں پیچھے رہ جاتا ہے، چنانچہ میں نے سلک سلوک مصنہی خواجہ بایزید بسطامی میں پڑھا ہےکہ سالکِ راہِ طریقت کو چاہئے کہ بے ضرورت گھر سے نہ نکلے اور لوگوں میں زیادہ نشست برخاست نہ رکھے، ہاں مجلسِ علما میں جائے مگر وہاں بھی فضول گفتگو نہ کرے پھر دیکھئے کہ اُس کی عبادت کیا رنگ لاتی ہے اور اُس کا ضمیر کس قدر روشن و منور ہوجاتا ہے، اس کے بعد ارشاد ہوا کہ جب پیر مرید کے سر پر قینچی چلائے تو پہلے مرید کو غسل کے لئے کہے اور پھر اُس کے منہ میں اپنے ہاتھ سے کچھ شیرینی دے اور تین دفعہ کہے کہ اے خدا ! اپنے بندے کو اپنی طلب میں پر لطف ذوق بخش، اُس کے بعد اگر خلوت مناسب سمجھے تو خلوت کرے ورنہ سکوت ارادت کی تعلیم دے۔

    بعد ازاں ارشاد ہوا کہ اسرارالعارفین میں لکھا ہےکہ خلوت بعض کے نزدیک چالیس دن کی ہونی چاہئے اور بعض کے نزدیک ستر دن کی اور بعض کے نزدیک ننانوے دن کی لیکن ننانوے دن کی خلوت معتبر ہے جو شیخ عبداللہ تستری سے مروی ہے مگر طبقۂ جنیدیہ میں بارہ سال آئے ہیں اور طبقہ بصیریہ میں بیس سال، ریاضت سے مطلب یہ ہے کہ نفس امارہ مغلوب ہو اور گوشہ نشینی سے مراد یہ کہ سگِ نفس کو محبوس کیا جائے، بہت سے مشائخ کے نزدیک مراقبہ کر ناہی سلوک ہے، وہ کہتے ہیں کہ تمنائی میں سوائے مراقب ہونے کے کچھ نہ کرو، عزلت نشینی کے وقت سر کو کپڑے سے ڈھک لینا چاہئے تاکہ اُس کی برکت سے اس میں روشنی پیدا ہو جائے، خرقہ انہی کاموں کے لئے دیا جاتا ہے۔

    تلقین ذکر

    بعض مشائخ نے کہا ہے، مثلاً خواجہ فضیل عیاض اور خواجہ حسن بصری کہ پِیر کو لازم ہے کہ اول اپنی ٹوپی مرید کے سر پر رکھ دے پھر اُس کے بعد تلقین ذکر کرے، ذکر تین ہیں۔ اول : لا الہ الا اللہ۔

    دوم : سبحان اللہ والحمد لللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر۔

    سوم : یاحی یا قیوم۔

    اگر پہلا ذکر اختیار کیا جائے تو اُس کا قاعدہ یہ ہے کہ نو دفعہ لا الہ الا اللہ کہے اور دسویں دفعہ محمد رسول اللہ پھر اکیس دفعہ سبحان اللہ پڑھے بعد ازاں تیس دفعہ یا حی یا قیوم لیکن یہ سب اِس طرح پڑھنا چاہئے کہ حاضرین بھی سنیں اور ذوق حاصل کریں لیکن ایسا چیخ کر نہیں کہ دوسرے گھروں تک آواز جائے۔

    اس کے بعد فرمایا کہ طبقۂ جنیدیہ میں بارہ دفعہ کا حکم ہے اور میں بھی اس سے متفق ہوں پھر ارشاد ہوا کہ ذکر اِس شان سے کرنا چاہئے کہ بدن کا رونگٹا رونگٹا زبان کا کام دے، حضرت یحییٰ جب ذکر کرتے تھے تو ایسے بے خود ہوجاتے تھے کہ صحرا کی طرف منہ کرلیتے اور غلبۂ شوق سے چلا چلا کر پکارتے کہ اے وہ جو مکان سے منزہ اور پاک ہے چل میرا دل تیرے ذکر سے پُر ہوگیا اگر سوائے تیرے نام کے کوئی لفظ میری زبان سے نکلے تو میں مرجاؤں، بعد ازاں فرمایا کہ خواجہ یوسف چشتی نے شرح الاسرار میں لکھا ہےکہ حضرت ذوالنون مصری کا قول ہے کہ شیخ و مرید کی مثال دایہ اور بچے کی سی ہے جس طرح بچہ کوئی بدخوئی کی حرکت کرتا ہے تو دایہ اُسے دوسرے اچھے کاموں میں مشغول کرکے خوش دل اور نیک بنانے کی سعی کرتی ہے اُسی طرح پیر بھی مرید سےکبھی ذکر کراتا ہے اور کبھی قرآن پڑھواتا ہے تاکہ کہیں اُس کا دل کسی خراب بات کی طرف نہ لگ جائے، اس کے بعد فرمایا ’’ہاں یہ بھی ارشاد ہے کہ فقیر کو اہلِ دنیا کے ساتھ خلا ملا نہ ہو، ان سے بہت صحبت نہ رکھے کیونکہ اُن کی صحبت سے فقیر کا دل پریشان ہوجاتا ہے کوئی چیز درویش کے لئے تونگروں کی صحبت سے بڑھ کر مضر نہیں، فقیر کے دین و دنیا گوشے ہی میں ٹھیک ہوتے ہیں پھر فرمایا کہ بس پیرو مرید کی یہ کیفیت ہونی چاہئے جو اِس وقت بیان کی گئی اگر کسی کو ایسا شیخِ کامل نہ ملے جس کی کتب اہل سلوک پر نظر ہو یا جو پورے پورے بزرگانِ سلف کی اتباع نہ کرسکتا ہو تو سوچ سمجھ کر مرید ہونا چاہئے۔

    پھر فرمایا یہ پِیر پر واجب ہے کہ مرید کو وصیت کرے کہ وہ بادشاہوں اور امیروں کی صحبت سے بچے اور طالبِ شہرت و ثروت نہ بنے، زیادہ بولنے سے احتراز کرے اور بے حاجت کہیں نہ جائے کیونکہ یہ سب باتیں دنیا والوں کی ہیں اور حبِ دنیا کل خطاؤں کی جڑ ہے، حب الدنیا راس کل خطیئۃ پھر فرمایا کہ سجادے کو ضرورت بے ضرورت نہ چھوڑنا چاہئے، کیونکہ اصحابِ طریقت کہہ گئے ہیں کہ جب کوئی شخص روز روز طلب دنیا میں پھرتا ہے تو اسے علمِ حلال و حرام نہیں رہتا اور اگر کوئی صوفی سلوک و سجادے کو چھوڑ کر کوچہ و بازار کا چکر لگاتا ہے تو وہ بھی کھوکھلا ہوجاتا ہے، اس کے بعد ارشاد ہوا کہ ابوبکر شبلی فرماتے ہیں کہ راہِ قبول پر چلنے والے کی علامت یہ ہے کہ جس طرح بھی ہو جمعے کی شب کو جاگ کر گزارے اور اُس میں ذکر یا تلاوت یا نماز (نوافل) پڑھتارہے لیکن نماز پڑھنی افضل ہے کیونکہ ارشاد ہے، الصلوٰۃ معراج المؤمنین۔ اس کے بعد فرمایا کہ اہل سلوک کا قول ہے کہ اصلِ سلوک ریاضت اور ثمر ارادت ہے، اس لئے بندے کو چاہئے کہ جہاں تک ہوسکے ہم نشینیِ اغنیاء و ملوک سے محترز رہے اور نفسانی خواہشات کو مارے اور صالحین کی صحبت اختیار کرے کہ نبی کی حدیث ہے، صحبۃ الصٰلحین نور و رحمۃ للعالمین۔

    الحمدللہ علی ذٰلک۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے