Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

راحت القلوب، چوتھی مجلس :- فضیلت شب معراج و سماع

بابا فرید

راحت القلوب، چوتھی مجلس :- فضیلت شب معراج و سماع

بابا فرید

MORE BYبابا فرید

    دلچسپ معلومات

    ملفوظات : بابا فریدالدین مسعود گنج شکر جامع : نظام الدین اؤلیا

    اسی ماہ اور اسی سن کی 27 تاریخ کو پھر سعادت پائے بوسی نصیب ہوئی۔

    شیخ جمال الدین متوکل، شمس دبیر، شیخ نجم الدین اور کئی عزیز حاضر تھے، شبِ معراج اور اس کی فضیلت پر بحث چھڑی، حضرت نے فرمایا کہ راتوں میں سب سے افضل رات 27 رجب کی ہے جس میں رسول اللہ معراج پر پہنچے جو شخص اس شب کو بیدار رہے بس اس کے لئے بھی وہ شبِ معراج ہے اسے بھی سعادتِ معراج حاصل ہوگئی اور اس کا ثواب اس کے نامۂ اعمال میں لکھا گیا، اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ ایک دفعہ میں نے بغداد کا سفر کیا جب شہر میں پہنچا تو میں نے ہر شخص سے وہاں کے بزرگوں اور ان کے ٹھکانوں کا پتہ پوچھنا شروع کیا، آخر ایک درویش کا پتہ لگاکہ وہ دجلے کے کنارے رہتے ہیں، میں اُن کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ اُس وقت نماز پڑھ رہے تھے، میں وہاں ٹھہر گیا اور اُن کی فراغت کا انتظار کرنے لگا جب وہ فارغ ہوئے تو میں نے آداب عرض کیا، اشارہ فرمایا کہ بیٹھ جاؤ، میں بیٹھ گیا، ایسا باعظمت و باہیبت چہرہ تھا کہ کبھی دیکھنے میں نہیں آیا، چودھویں رات کے چاند کی طرح تاباں، دریافت فرمایا کہاں سے آئے ہو؟عرض کیا اجودھن سے، فرمایا جو درویش کے پاس ارادت سے آئے گا وہ کبھی نہ کبھی بزرگ ہوگا، یہ جملہ سن کر میں نے سرجھکا لیا، فرمانے لگے کہ مولانا فرید ! میں پچاس سال سے اس غار میں مقیم ہوں، خار و خاشاک غذا ہے اور بندہ خواجہ جنید بغدادی کی اولاد سے ہے، کل ماہ رجب کی 27 تاریخ تھی اگر سنو تو اُس رات کی کیفیت بیان کروں، میں نے نہایت ادب سے عرض کیا فرمائے، کہا تیس سال گزر گئے، میں نہیں جانتا کہ رات کہاں آتی ہے، میرا پہلو زمین سے نہیں لگا لیکن کل شب مصلے پر لیٹ کر سوگیا، خواب میں دیکھا کہ ستر ہزار مقرب فرشتے زمین پر آئے اور میری روح کو اوپر لے گئے جب آسمان اول پر پہنچا تو دیکھا کہ فرشتے کھڑے ہیں اور ایک طرف نگاہ جمائے یہ پڑھ رہے ہیں، سبحان ذی الملک والملکوتِ ندا آئی کہ جس دن سے یہ پیدا ہوئے ان کی یہی تسبیح ہے، بعدازاں میری روح آگے بڑھائی گئی اور آسمان دوم پر پہنچی پھر تیسرے پر پھر چوتھے پر پھر پانچویں پر، میں جہاں گیا خدائے تعالیٰ عزوجل کی قدرت کے عجیب عیبت تماشے دیکھے کہ تعریف نہیں ہوسکتی جب عرش سامنے آیا تو حکم ہوا بس ٹھہر جاؤ، جملہ اؤلیا و انبیاء حاضر تھے اپنے جدامجد حضرت جنید کو دیکھا کہ سرجھاتئے بالکل خاموش کھڑے ہیں، آواز آئی ’’اے فلاں‘‘میں نے کہا ’’لبیک اے بار خدایا‘‘ فرمایا شاباش تو نے عبادت کا حق خوب ادا کیا، اب تیری محبت کا صلہ یہ ہے کہ تجھے علیین میں جگہ دی جاتی ہے، میں بے حد خوش ہوا اور سجدے میں گر پڑا، ارشاد ہوا۔ ’’سر اٹھاؤ‘‘ میں نے سر اٹھایا اور عرض کیا، ’’کچھ آگے بڑھ سکتا ہوں؟ جواب ملا ’’بس ابھی تمہاری معراج یہیں تک تھی، اگر اپنے کام میں اور ترقی کروگے یہاں بھی تمہارا درجہ بڑھ جائے گا، تم سے جو کامل تر ہیں ان کی حجابِ عظمت تک رسائی ہے‘‘ یہ سن کر میں نے خواجہ جنید کی طرف رخ کیا اور اپنے سر کو ان کے قدموں پر رکھ دیا، دیکھتا کیا ہوں وہ خود سر بسجود ہیں، میں نے پوچھا کہ ’’اے جد من یہ کیا ماجرا ہے؟ کہا، جب تجھے یہاں بلایا گیا تو میں اس فکر میں پڑ گیا کہ کہیں کچھ میرے خلاف تو عمل میں نہیں آنے والا، مجھے گمان تھا کہ تجھ سے کوئی تقصیر ہوتی ہے اور میں اُس کے سبب شرمندہ کیا جاؤں گا کہ جنید کی اوالاد نے ایسا کیا۔

    اِس کے بعد میری آنکھ کھل گئی، پس اے فرید ! جو شخص خدا کا کام کرتاہے خدا اُس کے کام بنا دیتا ہے، اس لئے چاہئے کہ انسان اپنے فرائض کی ادائیگی ہمت سے بڑھ کر منہمک ہو اور فرمایا جو شخص شب زندہ دار رہے اسے یہ سعادت حاصل ہوسکتی ہے، یہ دعا گو کچھ دن تک ان بزرگ کی خدمت میں رہا، وہ نماز عشاء کےبعد نوافل پڑھتے تھے اور ایسے پاؤں باندھ کر کھڑے ہوتے کہ صبح ہوجاتی۔

    اس کے بعد شیخ الاسلام نے فرمایا کہ اس شب میں سو رکعتیں آئی ہیں، ہر رکعت میں الحمد کے بعد سورہ اخلاص پانچ بار اور اختتام نماز پر سودفعہ درود شریف، اب جو دعا مانگی جائے گی قبول ہوگی انشاء اللہ تعالیٰ، پھر ارشاد ہوا کہ میں نےشیخ معین الدین سنجری سے سنا ہے فرماتے تھے کہ یہ شب شبِ رحمت ہے جو اِس میں جاگتا ہے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے محروم نہیں رہتا، بعد ازاں کہا ’’رسول اللہ فرماتے ہیں کہ اس رات ستر ہزار فرشتے آسمان سے نور سے بھرے ہوئے طباق لےکر زمین پر آتے ہیں اور گھر گھر جاکر جو بیدار ہوتا ہے اس پر انہیں ڈال دیتے ہیں، شیخ الاسلام یہ بات کہہ کر چشم پُرآب ہوگئے اور فرمانے لگے کہ نہ معلوم لوگ کیوں ان نعمتوں کو حاصل نہیں کرتے اور خدا کی عبادت سے غافل رہتے ہیں، یہ گفتگو جاری تھی کہ شیخ بدرالدین غزنوی چھ درویشوں کو ساتھ لئے ہوئے آئے اور اظہارِ آداب کرنے لگے، حضرت شیخ الاسلام نے فرمایا بیٹھ جاؤ۔

    سماع کی بحث

    اب سماع پر بحث چھڑ گئی، سب چپ تھے، شیخ جمال الدین ہانسوی نے فرمایا کہ سماع دلوں کے لئے موجبِ راحت ہے، اِس سے اہل محبت کو جو دریائے آشنائی میں تیرتے رہتے ہیں جنبش و حرکت ہوتی ہے، شیخ الاسلام نے جواب دیا بیشک عاشقوں کی رسم یہی ہے کہ جب محبوب کا نام سنتے ہیں، مزہ لیتے ہیں، اس پر شیخ بدرالدین غزنوی نے عرض کیا کہ حضرت ! سماع والوں پر بے ہوشی کیوں طاری ہوجاتی ہے؟ شیخ الاسلام نے فرمایا جس دن سے وہ ندائے الست بربکم سن کر بے ہوش ہوئے ہیں سرور و بے ہوشی ان کے خمیر میں ڈال دی گئی ہے، اس لئے آج بھی جب ان کے کان میں کوئی اچھی آواز آتی ہے وہ مست ہوجاتے ہیں۔

    شمس دبیر نے سجدۂ تعظیم بجا لاکر پوچھا حضور ندائے الست بربکم کے وقت تمام روحیں ایک جگہ تھیں یا علیٰحدہ علیٰحدہ ؟ فرمایا کہ سب ایک جگہ تھیں، شیخ الاسلام نے ارشاد کیا کہ امام غزالی لکھتے ہیں کہ جب حضرت حق نے ندائے الست بربکم بلند کی تو تمام روحیں برابر برابر تھیں لیکن اس کے سنتے ہی چار صفتیں ہوگئیں، پہلی صف نے دل و زبان دونوں سے کہا ’’بلیٰ‘‘ یعنی بے شک تو ہمارا پروردگار ہے اور فوراً سجدے میں گر پڑی، اس میں انبیا اؤلیا اور صالحین تھے، دوسری صف نے دل سے تسلیم کیا مگر زبان سے نہ کہا، البتہ سجدہ اس نے بھی کیا، یہ وہ ہیں جن کی پیدائش کفار میں ہوئی مگر خاتمہ ایمان و اسلام کے ساتھ ہوا، تیسرے گروہ نے زبان سے کہا مگر ان کے دل کو قبول نہ ہوا، سجدہ تو وہ کرگئے مگر پھر پچھتائے کہ یہ کیا جہالت کی، یہ مسلمان پیدا ہوئے اور کافر مرے، عیاذا باللہ منھا، چوتھی صف نے نہ دل سے کہا اور نہ زبان سے اور سجدے میں بھی شریک نہیں ہوئے یہ اول و آخر شرف اقرار سے محروم رہے۔

    جب شیخ الاسلام یہاں تک بیان کرچکے تو پھر پہلی بحث شروع ہوئی، فرمایا کہ سماع میں جو لوگ بے ہوش ہو جایا کرتے ہیں یہ وہی ہیں جو ندائے الست بربکم سن کر بے ہوش ہوگئے تھے، وہی چیز ان میں اب تک موجود ہے جب دوست کا نام سنتے ہیں تو حیرت اور ذوق اور بے ہوشی کا ظہور ہونے لگتا ہے اور یہ سب معرفت کی باتیں ہیں یعنی جب تک دوست کی شناخت نہ ہوجائے، خواہ ہزار سال عبادت کرتا رہے اس میں لطف نہیں آئے گا کیونکہ اُسے معلوم نہیں کہ میں طاعت کس کی کر رہاہوں اور طاعت کا مقصود یہی ہے کہ جو اہلِ سلوک وا ہلِ عشق کہہ گئے ہیں، کلام مجید میں ہے، وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون، اس کے معنیٰ امام زاہد لکھتے ہیں کہ ’’نہیں پیدا کیا جن و انس کو مگر اس واسطے کہ وہ بندگی کریں‘‘ اہلِ سلوک کا قول ہے کہ لیعبدون او لیعرفون یعنی عبادت کرنے کے لئے یا معرفت کیلئے کیونکہ جب تک معرفت نہ ہوگی لطفِ عبادت کیا ملے گا، عشق مجازی میں دیکھ لو، جب تک کوئی کسی کو دیکھتا نہیں عاشق نہیں ہوتا اور عاشق ہونے کے بعد محبوب کے متعلقین کی مدد کے بغیر محبوب تک رسائی نہیں ہوتی، اِسی طرح حقیقت اور طریقت کا حال ہے کہ جب تک خدائے عزوجل کو نہیں پہچانتا اور اس کے اؤلیا سے دوستی نہیں کرتا یعنی اپنے آپ کو ان کے پلے سے نہیں باندھ دیتا طاعت و عبادت میں کیفیت نہیں پاتا، اس کے بعد شیخ الاسلام ذکر اللہ بالخیر نے فرمایا ندائے الست بربکم سے مراد یہی شناخت دوست ہے، یکایک محمد شاہ نامی حضرت اوحد کرمانی کے سامنے گانے والا یک قوال بھی اپنی ٹولی کے ساتھ آگیا، شیخ جمال الدین ہانسوی اور شیخ بدرالدین غزنوی حاضر تھے، حضرت نے قوالوں سے فرمایا کچھ سناؤ، انہوں نے گانا شروع کیا، شیخ الاسلام کھڑے ہوگئے اور رقص کرنے لگے، ایک دن رات یہی حالت طاری رہی، نماز کے وقت نماز پڑھ لیتے اور پھر سماع میں آجاتے، غزل یہ تھی۔

    ملامت کردن عاشقی است

    ملامت کے کند آں کس کہ بیناست

    نہ ہر تر دامنے را عشق زیبد

    نشانِ عاشقی از دور پیداست

    نظامیؔ تا توانی پار سا باش

    کہ نورِ پارسائی شمع دلہاست

    ہوشیار ہوئے تو سلوک پر گفتگو چھڑ گئی، فرمایا اہل سماع وہ لوگ ہیں جن پر حالت تحیر و استغراق میں اگر سو ہزار تلواریں چلائی جائیں تو بھی انہیں مطلق خبر نہ ہو جس وقت انسان دوست کی محبت میں محو ہوتا ہے اُسے دنیا و مافیہا کی خبر نہیں رہتی، کوئی آئے کوئی جائے وہ نہیں جانتا کہ کیا ہوا، اس کے بعد چند درویشوں نے حضرت کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم مسافر ہیں وطن جانا چاہیتے ہیں مگر خرچ نہیں ہے، شیخ الاسلام کے سامنے کچھ خستہ کھجور رکھی تھیں، وہی اٹھا کر درویشوں کو دے دیں اور کہا جاؤ جب درویش باہر آئے انہوں نے آپس میں کہنا شروع کیا کہ ان خستہ کھجوروں کو کیا کریں، لاؤ یہیں پھینک چلیں پھر جو دیکھا تو وہ کھجوریں نہیں تھیں اشرفیاں تھیں، موذن نے اذان دی، خواجہ نماز میں مشغول ہوئے اور میں سب کے ساتھ رخصت ہوکر چلا آیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے