Sufinama

راحت القلوب، تیسری مجلس :- بندے اور مولیٰ کے درمیان حجاب

بابا فرید

راحت القلوب، تیسری مجلس :- بندے اور مولیٰ کے درمیان حجاب

بابا فرید

MORE BYبابا فرید

    دلچسپ معلومات

    ملفوظات : بابا فریدالدین مسعود گنج شکر جامع : نظام الدین اؤلیا

    20شعبان دو شنبہ 655 ہجری

    دولت پائے بوسی حاصل ہوئی، مولانا ناصح الدین پسر قاضی حمیدالدین ناگوری، ناگور سے آئے ہوئے تھے اور مولانا شمس الدین برہان بھی حاضرِ خدمت تھے، گفتگو دنیا کے بارے میں ہورہی تھی، حضرت نے فرمایا کہ رسول اللہ فرماتے ہیں کہ حب الدنیا رَاسُ کل خطیٔۃ یعنی دنیا کی محبت تمام خطاؤں کی جڑ ہے پھر ارشاد ہوا قال اہل المعرفۃ من ترک الدنیا ملک ومن اخذہا ہلک، اہل معرفت نے کہا ہے جس نے دنیا کو چھوڑ دیا وہ اُس پر حاوی ہوگیا اور جس نے اسے اختیار کرلیا وہ مارا گیا۔

    شیخ عبدللہ تستری کہتے ہیں کہ مولیٰ اور بندے کے درمیان دنیا سے بڑھ کر کوئی حجاب نہیں، جس قدر انسان دنیا میں مشغول ہوتا ہے اُسی قدر حق سے دور رہتا ہے، اگر انسان چاہے کہ پشت کا حال معلول کرنے لگے تو سامنے پردہ ڈال لے، غرضیکہ ہر وقت دنیا میں منہمک رہنا ٹھیک نہیں، اُس کے بعد فرمایا کہ میں نے شیخ الاسلام قطب الدین بختیار کاکی اوشی سے سناہے وہ اپنے استاد کے حوالے سے روایت فرماتے تھے کہ جب تک بندہ بذریعہ صیقلِ محبت اپنے آئینہ قلب کو زنگارِ دنیا سے پاک اور صاف نہیں کرتا اور ذکرِ حق تعالیٰ سے دل نہیں لگاتا اور غیر کو درمیان سے نہیں ہٹاتا اُس وقت تک اللہ تعالیٰ کو ہرگز نہیں پاتا، اس کے بعد ارشاد ہوا کہ ’’تحفہ العارفین‘‘میں خواجہ شبلی نے لکھا ہے کہ اصل صلاحیت دل سے ہے، جب دل راستی پر آگیا تو انسان خود بخود درست ہوجاتا ہے پھر فرمایا کہ دل کے لئے بھی زندگی اور موت ہے اور دونوں کی علیٰحدہ علیٰحدہ صورت ہے، کلام اللہ میں ہے، اَو من کان میتا یعنی دنیا میں زیادہ مشغول رہنے سے دل مرجاتا ہے، فاحیاہ بذکر المولیٰ پس زندہ کرتے ہیں اسے ذکرِ مولیٰ سے۔

    پھر فرمایا کہ انسان جب دنیا کی لذتوں اور خواہشوں اور کھانے پینے میں مشغول ہوجاتا ہے تو غفلت اور خرابی اس پر اثر کرتی ہے اور ہوا و حرص اُس پر غالب آجاتی ہے، غیراللہ کا فکر و اندیشہ اس کے دل کو سیاہ کردیتا ہے اور جب دل سیاہ ہوگیا تو اُس کی موت ہے جس طرح وہ زمین جس میں خش و خاشاک کی زیادتی ہو اور جو بیج کو قبول نہ کرے مردہ کہلاتی ہے، اِسی طرح وہ دل جس سے خدا کا ذکر نکل گیا ہو اور جس پر دیو اور پری نے غلبہ پالیا ہو، اس انقلاب کے سبب مردہ کہلاتا ہے، برخلاف اس کے جب تعلق دنیا دل سے جاتا رہتا ہے اور ہوائے نفس نابود ہوجاتی ہے اور بندہ ذکر و شغل کرتا ہے تو دل زندہ ہو جاتا ہے، اس کے بعد فرمایا عمدہ میں حضرت بغدادی نے بھی لکھا ہے کہ اصل اس راہ میں صلاحیت قلب ہے اور یہ صلاحیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان مذمورات دنیا جیسے غِل و غِش، حسد و کبر، حرص و بخل وغیرہ چھوڑ دیتاہے اُن سے بچنا دل کی طہارت کے لئے ضروری ہے، درویشوں کے یہی کام ہیں اور جو ہر درویشی انہی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے، اس کے بعد شیخ الاسلام چشم پُرآب ہوگئے اور فرمانے لگے جو درویش دنیا میں معروف رہتا ہو اور جاہ و رفعت کا طلب گار ہو سمجھ لو کہ وہ درویش نہیں بلکہ طریقت کا مرتد ہے کیونکہ فقر نام ہی اس چیز کا ہے کہ دنیا سے اِعراض کیا جائے پھر اسی ضمن میں فرمایا کہ ایک دفعہ میں بغداد میں خواجہ اجل سنجری کے پاس بیٹھا ہوا تھا، وہاں اُس وقت درویشوں کے بارے میں گفتگو ہورہی تھی، خواجہ اجل سنجری نے فرمایا عمدہ میں خواجہ جنید تحریر کرتے ہیں کہ مذہبِ فقر میں درویش کے لئے یہ حرام ہے کہ وہ اہل دنیا سے میل جول رکھے یا بادشاہوں اور سلطانوں کے ہاں آئے جائے، ارشاد ہوا کہ حدائق میں لکھا ہےکہ ایک مرتبہ بادشاہِ عراق نے جو تین سال سے کسی موذی مرض میں مبتلا تھا خواجہ شہاب تستری کو استعانت کے لئے طلب کیا وہ تشریف لے گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی پاک دعا سے اسے شفادے دی مگر اس ایک ساعت کے بدلے جو باشاہ کی صحبت میں گزری تھی وہ سات سال تک خلقت سے عزلت گزیں رہے پھر ارشاد کیا کہ مشائخِ طریقت نے اس باب میں فرمایا ہے، صحبۃ الاغنیاء للفقراءِ سم قاتل امیروں کی ہم نشینی فقیروں کے لئے زہر قاتل ہے، پس حاصل اس گفتگو کا یہ ہے کہ جس قدر تونگر لوگوں سے بچو گے اسی قدر خدا سے نزدیکی ہوتی جائے گی، چونکہ محبتِ دنیا امرا لوگوں کے دلوں میں استوار ہوتی ہے، اس لئے ان کی صحبت سے نقصان پہنچتا ہے، تقرب اور طریقت یہ ہے کہ درویش کے دل میں دنیا اور اہل دنیا کی دوستی کا ذرہ بھر اثر نہ ہو، فقیر کے نزدیک تمام خلق اللہ برابر و یکساں ہے، یہ کہہ کر شیخ الاسلام نے دعاگو سے خطاب فرمایا کہ اصل چیز اس راہ میں حضوریٔ قلب ہے اور یہ حاصل نہیں ہوتی جب تک لقمۂ حرام سے پرہیز اور اہل دنیا سے اجتناب نہ کیا جائے، مشائخ نے کہا کہ اگر کوئی لقمہ حرام اور مجلس ملوک و اہل دنیا سے پرہیز نہ کرے تو اُس کو گلیم پہنانے کی اجازت نہیں کیونکہ یہ انبیا (صلوات اللہ علیہم اجمعین) کا لباس رہا ہے اور تمام ابدال و اوتاد وزہّاد نے اس کو اوڑھا ہے، گلیم کی قدر حضرت موسیٰ کلیم اللہ جانتے ہیں، آدم صفی اللہ جانتے ہیں، حضرت ابراہیم خلیل اللہ جانتے ہیں، حضرت محمد حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جانتے ہیں پھر فرمایا شیخ الاسلام قطب الدین بختیار کاکی کا بیان ہے کہ میں خواجہ مودود چشتی کی خدمت میں دس سال تک حاضر رہا، میں نے کبھی نہ دیکھا کہ حضور کسی بادشاہ یا امیر کے گھر گئے ہوں، حضرت ہی کا قول ہے کہ جو درویش کسی بادشاہ یا امیر کے در پر چلا جائے اُس سے گلیم اور تمام اسباب درویشی چھین لینا چاہئے اور کہہ دینا چاہئے کہ درویشی کا نام لینا موقوف کرے اگر نہ مانے تو اس کے جامہ و گلیم کو آگ میں جلا دو کیونکہ جو فقیر اہل دنیا میں جاتا اور ان میں مل جل کر بیٹھتاہے وہ درویش نہیں، مدعی کذاب ہے، میں نے بعض اہل طریقت کو دیکھا ہے کہ جب انہیں کوئی حاجت یا مصیبت پیش آئی تو انہوں نے گلیم کو اتار کر علیٰحدہ رکھ دیا، اس کے بعد گلے میں زنجیر ڈال کر حق تعالیٰ سے مناجات شروع کی مہم طے ہوگئی پھر شیخ الاسلام نے مجھ کو مخاطب کیا اور فرمایا جو بالوں کا جامہ پہنے اسے چرب و شیریں کھانا نہ کھانا چاہئے اور نہ اہل دنیا میں خلط ملط ہونا چاہئے اگر کوئی ایسا نہیں کرتا وہ اؤلیا کے لباس کا خائن ہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا میں نے آثارالعارفین میں دیکھا ہے کہ خواجہ ذوالنون مصری کا کوئی درویش مرید بادشاہ کے ہاں بہت آمدو رفت رکھتا تھا، خواجہ صاحب نے اسے بلوایا اور اس سے لباسِ فقرلے کر آگ میں ڈال دیا اور بہت غضبناک ہوکر فرمایا اؤلیا و انبیا کے لباس کو خبیثوں میں دکھاتا پھرتا ہے اور پھر ارادہ ہے کہ اسی سے خدا کے سامنے جائے پھر فرمایا کہتے ہیں امام مالک تین کپڑے پہنا کرتے تھے، جب نماز کا وقت آتا تو اوپر کا اور نیچے کا لباس اتار دیتے اور بیچ کے کپڑوں سے عبادتِ الٰہی ادا کرتے، کسی نے سبب پوچھا، فرمایا اوپر کے پیراہن میں خلق کی نظر پڑنے کے سبب ریا و رسم کا شائبہ پیدا ہوگیا ہے اور اندر کے لباس میں حرص و حسد اور غِل و غش کی بو آتی ہے، بیچ کے کپڑے ان دونوں باتوں سے پاک ہیں، اس لئے انہی سے نماز پڑھنا پسند کرتا ہوں، اس کے بعد شیخ العالم چشم پُرآب ہوگئے اور بولے متقدمین کا یہ حال تھا جبھی تو وہ منزلِ مقصول تک پہنچتے تھے، نماز کا وقت آگیا، شیخ اس میں مشغول ہوگئے اور سب اٹھ کھڑے ہوئے۔

    الحمدلللہ علی ذٰلک۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے