Sufinama

راحت القلوب، دوسری مجلس :- درویشوں کا تذکرہ

بابا فرید

راحت القلوب، دوسری مجلس :- درویشوں کا تذکرہ

بابا فرید

MORE BYبابا فرید

    دلچسپ معلومات

    ملفوظات : بابا فریدالدین مسعود گنج شکر جامع : نظام الدین اؤلیا

    16شعبان روز پنج شنبہ، 655 ہجری

    آج دولت پائے بوسی میسر آئی۔

    شیخ بدرالدین غزنوی، شیخ جمال الدین ہانسوی، مولانا شرف الدین تمبیہ، قاضی حمیدالدین ناگوری وغیرہ بھی حاضر تھے، ارشاد ہوا کہ امیر غریب، درویش مسکین، کوئی آئے اسے خالی پیٹ مت جانے دو، کچھ نہ کچھ دے دو تاکہ وہ درویش صفت بن جائے، فرمایا کہ میرے پاس جو آتا ہے خواہ وہ امیر ہو یا غریب اور خواہ وہ کچھ لائے یا نہ لائے مجھے لازم ہو جاتا ہے کہ اسے کچھ دوں، اس کے بعد شیخ الاسلام چشم پُرآب ہوگئے اور یہ حکایت فرمانے لگے کہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جو صحابہ طلبِ علم اور احکامِ شرع سیکھنے آیا کرتے تھے وہ بعد میں وہی باتیں دوسروں کو سنا دیا کرتے تھے تاکہ وہ بھی ان سے مستفید ہوجائیں، اس کے بعد شیخ الاسلام نے فرمایا کہ عمدۃ الابرار تاج الاتقیا حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کا قاعدہ تھا کہ جس دن ان کے لنگر خانے میں کوئی چیز نہ ہوتی تو شیخ بدرالدین غزنوی خادمِ خانقاہ سے کہہ دیا کرتے کہ پانی رکھ دو اور جو آئے اسے وہی پیش کردو تاکہ بخشش و عطا سے کوئی محروم نہ جائے، بعد ازاں اسی سلسلے میں فرمایا کہ جس زمانے میں مَیں بغداد کا سفر کر رہا تھا شیخ اجل سنجری سے ملاقات ہوگئی، بزرگ اور باہیبت شخص تھے، میں ان کے جماعت خانے میں گیا اور سلام بجا لایا، انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میری طرف دیکھ کر بولے، آؤ شکرِ عالم خوب آئے، بیٹھو، میں بیٹھ گیا وہ میرے فوراً حکم پر بیٹھ جانے سے خوش ہوئے، میں ان کی خدمت میں کئی دن تک رہا لیکن ایک دفعہ بھی نہ دیکھا کہ کوئی ان کی خانقاہ سے محروم گیا ہو اگر کچھ نہ ہوتا تو سوکھے چھوارے ہی ہاتھ پر رکھ دیتے اور دعا کرتے کہ خدا ئے تعالیٰ تیرے رزق میں برکت دے، شہر کے لوگ کہا کرتے تھے کہ جس کو شیخ نے کھجور دی وہ عمر بھر کسی کا محتاج نہ ہوا پھر اسی سلسلہ میں ارشاد ہوا کہ جب میں وہاں سے رخصت ہوا تو بغداد کے باہر ایک غار میں ایک اور درویش ملے، میں نے سلام کیا انہوں نے جوابِ سلام دے کر کہا، بیٹھ جاؤ میں بیٹھ گیا، یہ درویش اس قدر کمزور اور لاغر تھے کہ بس ہڈی سے چمڑا لگ رہا تھا، میں نے دل میں سوچا کہ اس جنگل میں انہیں کھانے کو کہاں سے ملتا ہوگا، اس خیال کا آنا تھا کہ بزرگِ موصوف نے سر اٹھایا اور بولے اے فرید ! آج چالیس سال گزر گئے کہ اس غار میں رہتا ہوں اور گھاس پات سے پیٹ بھرتا ہوں، جب یہ حال دیکھا تو میں نے اپنا سر اُن کے قدموں پر رکھ دیا اور کچھ دن اُن کی صحبت میں گزارے پھر میں روانہ ہوکر بخارا میں شیخ شرف الدین باخزری کے پاس پہنچا، یہ بڑے باعظمت و پر ہیبت بزرگ تھے، جب میں سامنے حاضر ہوا اور زمین بوسی کر چکا تو فرمایا کہ بیٹھ جاؤ میں بیٹھ گیا، جتنی دفعہ میری طرف دیکھا، برابر ارشاد کرتے رہے کہ یہ شخص اپنے زمانے کے مشائخ میں ہوگا اور ایک عالم اس کا مرید و پیرو بنے گا، اس وقت ایک کالا کمبل حضرت کے کندھے پر پڑا ہوا تھا، اُسے میری طرف پھینکا اور حکم کیا کہ اسے اوڑھ لو، میں نے تعمیل کی، کئی دن حاضر خدمت رہا مگر کبھی ایسا نہ ہوا کہ ہزار بلکہ اس سے زیادہ آدمیوں نے ان کے دسترخوان پر کھانا نہ کھایا ہو، کھانا ختم ہو چکنے کے بعد بھی اگر کوئی آتا تو خالی نہ جاتا، کچھ نہ کچھ ضرور پاتا، بالآخر میں حضرت سے بھی رخصت ہوا اور ایک مسجد میں شب باش ہوا، صبح سنا کہ وہاں ایک صومعہ ہے، اس میں ایک درویش رہتے ہیں، وہاں پہنچا وہ جلال دیکھا کہ اب تک کسی بزرگ میں نظر نہ آیا تھا، نگاہ آسمان کی طرف تھی اور عالمِ تفکر میں خاموش کھڑے تھے، تین چار دن کے بعد ہوش میں آئے، میں نے سلام کیا، جواب دیا اور فرمایا آپ کو میری وجہ سے تکلیف اٹھانا پڑی، بیٹھئے، میں بیٹھ گیا، ارشاد ہوا کہ میں شمس العارفین کا نواسہ ہوں، آج تیس سال ہوئے کہ اس صومعے میں معتکف ہوں لیکن اے فرید ! اتنے طویل زمانے میں مجھے سوائے حیرت اور دہشت کے کچھ حاصل نہیں ہوا، سمجھتے ہو اس کی وجہ کیا ہے؟ دعاگو نے گردن جھکائی تاکہ وہی کچھ ارشاد فرمائیں، ارشاد ہوا کہ یہ صراطِ مستقیم راہِ راست ہے جس نے اِس میں سچائی سے قدم رکھا وہ تو پار ہوگیا مگر جو ذرا اختلافِ مرضیٔ دوست چلا وہ جلا دیا گیا، اُس کے بعد اپنا حال بیان کیا کہ اے فرید ! جس دن سے مجھے درِ مولیٰ میں باریابی ہوئی ہے ستر ہزار حجاب (میرے اور ان کے درمیان) تھے، فرمان ہوا کہ اندر آؤ، پہلا حجاب ہٹا تو مقربانِ درگاہ دکایئی دیے کہ نگاہ اوپر کئے اپنی اپنی شان میں کھڑے ہیں (ایسی شان میں کہ جسے سوائے خدائے عز و جل کے کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا) اور زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں کہ خدایا تیرے دیدار کا اشتیاق ہے، اِسی طرح تمام حجابات کو طے کیا، ہر جگہ نئے آثار اور نئی شاخیں دیکھیں، جب پردۂ خاص کے قریب پہنچا تو آواز آئی کہ اے فلاں ! اِس میں صرف وہی آسکتا ہے جو دنیا اور تمام موجوداتِ دنیا بلکہ اپنی ذات سے بھی بیگانہ ہوجائے، میں نے عرض کیا میں سب کو چھوڑ چکا، جواب ملا سب کو چھوڑ چکے تو بس ہمارے ہوگئے، آنکھ جو کھولی تو اُسی صومعے میں تھا تو اے فرید ! اس راستے میں اگر سب کو چھوڑے تو حق کا بیگانہ بنے۔

    اس کےبعد شیخ الاسلام نے فرمایا کہ رات آگئی، شام کی نماز انہیں بزرگ کے ساتھ پڑھی، نماز سے فارغ ہونے کے بعد دیکھا کہ دو پیالے آشِ جو کے اور چار روٹیاں غیب سے اُن کے سامنے آگئیں، مجھے اشارہ کیا کہ اندر آؤ، میں گیا اور کھانے کے لئے بیٹھ گیا جو لطف اُن روٹیوں اور آش کے پیالوں میں آیا آج تک کسی کھانے میں نصیب نہیں ہوا، خیر رات بھی وہیں بسر کی، صبح جو اٹھا تو اُن بزرگ کا پتہ نہ تھا چلا آیا اور ملتان پہچا اپنے بھائی بہاؤالدین زکریا سے ملا اور مصافحہ کیا وہ پوچھنے لگے کہو کہاں تک پہنچے؟ کیا حاصل کیا؟ میں نے کہا کہ اِس کرسی کو جس پر تم بیٹھے ہو کہوں تو ہوا میں اڑنے لگے، ابھی یہ جملہ زبان سے نہ نکلا تھا کہ کرسی معلق ہوگئی، بہاؤالدین زکریا نے کرسی پر ہاتھ مارا اور نیچے اڑآئے اور فرمانے لگے مولانا فرید تم تو خوب ہوگئے، یہاں سے دہلی گیا اور شیخ الاسلام قطب الدین بختیار اوشی کی خدمت میں حاضر ہوا اور جو بات کہیں نہ دیکھی تھی وہ یہاں پائی، خود کو ان کے دامنِ دولت سے وابستہ کردیا اور بیعت کی نعت سے مشرف ہوا، تین دن تک میرے پیر مجھے نعمت پر نعمت بخشتے رہے، اُس کے بعد فرمانے لگے کہ مولانا فرید نے اپنا کام پورا کرلیا، پھر میرے قریب آئے اور کلام ختم کرتے ہی نعرہ مار کر بے ہوش ہوگئے اور گر پڑے، یک شبانہ روز اُسی حالت میں رہے جب ہوش آیا تو دعاگو سے مخاطب ہوئے اور فرمانے لگے، مردانِ خدا ایسے ایسے مرحلے طے کرکے اس مقام کو پہنچتے ہیں، یہ سعادت سب لوگوں کو حاصل ہوسکتی ہے، خدا کا فیض عام ہے لیکن مرد ہونا چاہئے جو منزل پر پہنچنے کی کوشش کرتا رہے، اُس کے بعد ارشاد ہوا اے بھائی اس راہ میں جب تک صدق سے قدم نہ رکھے اور دل نہ جلے حاشا و کلا کبھی مقامِ قرب تک نہیں پہنچ سکتا، اُس وقت یہ اشعار زبانِ مبارک پر آئے۔

    تو راہ نرفتہ ازاں ننمودند

    وزنے کہ زد ایں درگہ بروں کشودند

    جاں در رہِ دلہاست اگر می خواہی

    تو نیز چناں بشوکہ ایشاں بودند

    اورپھر کھڑے ہوگئے، نماز کا وقت قریب تھا، عالم تحیر میں مشغول ہوگئے، یہ دعاگو اور تمام لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔

    الحمدللہ علی ذٰلک۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے