Sufinama

راحت القلوب، تئیسویں مجلس :- مجاہدۂ نفس

بابا فرید

راحت القلوب، تئیسویں مجلس :- مجاہدۂ نفس

بابا فرید

MORE BYبابا فرید

    دلچسپ معلومات

    ملفوظات : بابا فریدالدین مسعود گنج شکر جامع : نظام الدین اؤلیا

    27۔ماہ صفر 656ھ

    دولت پائے بوسی میسر آئی۔

    عزیزانِ اہلِ سلوک مثلا شیخ برہان الدین ہانسوی، شیخ ملہو لاہوری اور شیخ جمال الدین ہانسوی حاضر تھے اور چند صوفی بھی خاندان چشت کے آئے ہوئے تھے اور مجاہدے کے متعلق گفتگو ہو رہی تھی، ارشاد کیا کہ خواجہ بایزید بسطامی سے کسی نے اُن کے مجاہدے کی نسبت سوال کیا، فرمایا کہ میں بیس سال عالمِ تفکر میں ہوا کے اندر آنکھیں کھولے کھڑا رہا ہوں اور اُن بیس سال میں کبھی بیٹھنا اور اٹھنا اور سونا مجھ کو یاد نہیں، میرے پیروں سے خون جاری ہوگیا تھا اور پیر ورم کرگئے تھے پھر اُس کے بعد دوسال عالمِ محو میں رہا اور کبھی نفس کو سیر ہوکر پانی نہیں پلایا، صرف ایک ہفتے یا مہینے میں دو درم کے اندازے سے دیتا تھا پھر اُس کے بعد نفس کو انارِ شیریں کی خواہش ہوئی، میں ہر روز اُس سے وعدہ کرتا رہا یہاں تک کہ دس سال گزر گئے، تب نفس نے فریاد کی کہ تمہارا وعدہ کب پورا ہوگا، میں نے کہا آخری وقت میں، اگر اپنے مجاہدے کی مفصل کیفیت بیان کروں تو اُس کے سننے کی تم میں طاقت نہیں ہے جو معاملے کہ میں نے اپنے اور اپنے نفس کے ساتھ کئے ہیں تم اُن کا یقین نہیں کرسکتے، الغرض جب ستر برس اِسی طرح سے گذر گئے درمیان سے حجاب اٹھ گیا اور آواز آئی کہ اندر آؤ تم نے ہمارے کام میں کوئی کسر نہیں رکھی، لہٰذا واجب ہوا کہ ہم بھی تم پر تجلی کریں، اِس آواز کے آتے ہی خواجہ بایزید نے نعرہ مارا اور جاں بحق تسلیم کی، بعد ازاں شیخ الاسلام نے فرمایا کہ حضرت بایزید کے انتقال کا یہ واقعہ ہےاور فرمایا کہ جو مجاہدہ کرتا ہے وہی مشاہدے کو جانتا ہے اور یہ شعر زبان مبارک سے فرمایا۔

    در کوئے تو عاشقاں چناں جاں بدہند

    کانجا ملک الموت نگنجد ہرگز

    پھر اسی محل میں فرمایا کہ ایک بزرگ سے پوچھا گیا کہ مجاہدہ کیا ہے؟ فرمایا نفس کو مارنا یعنی اس کی مراد پوری نہ کرنا اور وہ طاعت اختیار کرنا جس سے نفس راضی نہ ہو پھر اسی محل میں فرمایا کہ خواجہ ابو یوسف چشتی نے اپنے نفس سے فرمایا کہ اے نفس اگر آج کی رات تو میرا ساتھ دے تو میں دو رکعت نماز میں قرآن شریف ختم کرلوں، روز اِسی طرح کرتے رہے آخر ایک دن نفس نے موافقت نہ کی اور حضرت کی دو رکعتیں فوت ہوگئیں، دوسرے روز حضرت نے مناجات کے وقت عہد کیا کہ بیس سال تک نفس کو سیر ہوکر پانی نہ دوں گا کیونکہ اُس شب جو نفس نے کاہلی کی تھی اُس کا سبب یہی تھا کہ اُس نے سیر ہوکر پانی پیا تھا پھر اسی محل میں فرمایا کہ شاہ شجاع کرانی چالیس سال نہ سوئے تھے، بعد چالیس سال کے ایک شب حضرت رب عزت کی زیارت سے مشرف ہوئے پھر جہاں جاتے کپڑا اوڑھ کر لیٹ رہتے کہ پھر وہ دولت حاصل ہو، ہاتف نے آواز دی کہ اے شاہ شجاع وہ دیدار چالیس سال کی بیداری کا نتیجہ تھا، اب چالیس سال اور بیدار ہو تب وہ نصیب ہو پھر شیخ الاسلام نے چشم پُر آب کی اور فرمایا کہ جب شاہ شجاع کرمانی کے انتقال کا وقت قریب پہنچا تو جس روز کہ حضرت انتقال کرنے والے تھے ایک ہزار رکعت نماز حضرت نے ادا کی اور مصلیٰ ہی پر سو رہے، دوبارہ حضرت ذوالجلال کی زیارت ہوئی اور حکم ہوا کہ اے شاہ شجاع آنا چاہتے ہو یا ابھی کچھ دن اور رہو گے؟ عرض کیا کہ خداوند اب رہنے کی تاب نہیں ہے، میں تو آؤں گا چنانچہ اُسی وقت بیدار ہوئے اور وضو کرکے دوگانہ پڑھا، عشاء کی نماز کا وقت تھا کہ سر بسجدہ ہو کر جاں بحق تسلیم کی، شیخ الاسلام نے ایک نعرہ مارا اور بے ہوش ہوگئے جب ہوش میں آئے تو یہ شعر آپ کی زبان پر جاری ہوا۔

    در کوئے تو عاشقاں چناں جاں بدہند

    کانجا ملک الموت نہ گنجد ہرگز

    بعد ازاں فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت بایزید سے کسی نے پوچھا کہ اپنے مجاہدے کا کچھ حال بیان کیجئے، فرمایا اگر تھوڑا سا بھی بیان کروں تو تم اس کو سن نہیں سکتے مگر میں تمہاری درخواست سے بہت تھوڑا بیان کرتا ہوں، ایک شب میں نے نفس کو عبادت کے واسطے طلب کیا، نفس نے سستی کی کیونکہ اُس شب اُس نے عادت سے زیادہ دو کھجوریں کھائی تھیں، غرض کہ نفس نے میرا ساتھ نہ دیا جب دن ہوا تو میں نے عہد کیا کہ عرصے تک خرما نہ کھاؤں گا، چنانچہ پندرہ برس خرما نہیں کھایا اور نفس اُس کی آروز ہی میں رہا اور کہنے لگا کہ جو کچھ حکم دو گے میں تابعدار ہوں، تب میں نے خرمے خرید کر اُس کو کھلائے اور مطیع ہوگیا جو کچھ میں اُس کو حکم دیتا تھا وہ بجا لاتا تھا بلکہ اُس سے زیادہ کرتا تھا پھر فرمایا کہ خواجہ ذوالنون مصری سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے اپنا مجاہدہ کہاں تک پہنچایا ہے؟فرمایا یہاں تک کہ دو دو اور تین تین سال ہوجاتے ہیں میں نفس کو سیر ہوکر پانی نہیں دیتا، چنانچہ اب دس سال ہوگئے ہیں کہ اُس کو پانی نہیں دیا ہے اور جب تک کہ ہر شب میں دو ختم قرآن شریف کے نہیں کرلیتا اور کسی کام میں مشغول نہیں ہوتا، بعد ازاں خواجہ ذوالنون مصری کے انتقال کی حکایت بیان فرمائی کہ ایک روز خواجہ اپنے یاروں کے ساتھ تشریف رکھتے تھے اور اؤلیااللہ کے انتقال فرمانے کا ذکر ہورہا تھا کہ ایک شخ سبز لباس پہنے ہوئے اور ایک سیب ہاتھ میں لئے ہوئے آیا، نہایت خوبرو اور نیک سیرت فرمان ہوا کہ بیٹھ جاؤ اور خواجہ ذوالنون مصری ہر بار اس شخص سے فرماتے تھے کہ خوب آئے اور بہت اچھے آئے پھر وہ سیب اس شخص نے خواجہ کو دیا، خواجہ نے اس سیب کو دونوں ہاتھوں سے لے کر تبسم کیا اور فرمایا کہ آپ تشریف لے جائیے، جب وہ چلا گیا تو خواجہ نے لوگوں کو بھی معذرت کے ساتھ رخصت کیا پھر قبلہ رو ہوکر قرآن شریف پڑھنا شروع کیا جب ختم کرچکے تو اس سیب کو سونگھا اور جان بحق تسلیم کی، بعد ازاں جب خواجہ کا جنازہ مسجد کے آگے لائے نماز کا وقت تھا اور مؤذن اذان کہہ رہا تھا جب اس نے کہا اشھد ان لا الہ الا اللہ خواجہ نے کفن سے ہاتھ باہر نکالے اور انگشت شہادت کھڑی کرکے فرمایا، اشھد ان محمد الرسول اللہ، ہر چند لوگوں نے چاہا کہ انگلی کو نیچا کریں مگر نہ ہوسکی اور آواز آئی کہ اے مسلمانو ! جو انگلی ذو النون نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر اٹھائی ہے وہ اس وقت تک نیچی نہ ہو گی جب تک آنحضرت کا ہاتھ اِسے نہ پکڑے گا، بعد ازاں شیخ الاسلام نے یہ شعر پڑھا اور خوب روئے۔

    در کوئے تو عاشقاں چناں جاں بدہند

    کانجا ملک الموت نہ گنجد ہرگز

    بعد ازاں فرمایا کہ جب خواجہ سہیل بن عبداللہ تستری کا انتقال ہوا اور خواجہ کا جنازہ لے کر باہر آئے تو شہر تستر کے یہودی جو بے حد منکر تھے ان کا سردار برہنہ پا حاضر ہوا اور کہا جنازے کو نیچے اتارو کہ میں مسلمان ہوتا ہوں جب جنازہ نیچے اتارا تو یہ یہودی جنازے کے پاس کھڑا ہوکر کہنے لگا کہ اے خواجہ مجھ کو کلمہ تلقین کرو تاکہ میں مسلمان ہوں اور اس سردار کے ساتھ اس کی قوم کے ہزار آدمی اس وقت موجود تھے، اُس کے یہ کلمے سنتے ہی خواجہ نے کفن سے ہاتھ نکالے اور آنکھیں کھول کر کہا، اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ، یہ کہہ کر پھر کفن کے اندر ہاتھ کرلئے اور آنکھیں بند کرلیں، لوگوں نے اُس یہودی سے پوچھا کہ تونے کیا برہان دیکھی جو مسلمان ہوا؟ اُس نے کہا جس وقت تم لوگ یہ جنازہ لے کر باہر آئے ہو میں نے آسمان میں ایک سخت آواز سنی اور اپنے دل میں کہا کہ یہ کیسی آواز ہے؟ پھر میں نے آسمان کی طرف نظر کی تو دیکھا کہ فرشتے آسمان سے نازل ہوئے ہیں اور ہاتھوں میں ان کے نور کے طبق ہیں، خواجہ کے جنازے پر آئے ہیں اور اُس نور کو نثار کرتے ہیں، میں نے کہا اللہ اکبر، حضرت محمد کے دین میں ایسے لوگ ہیں اور اِسی سبب سے میں مسلمان ہوگیا پھر شیخ االاسلام نے چشم پُر آب کی اور عالم تفکر میں ہوگئے اور یہ شعر پڑھا۔

    در کوئے تو عاشقاں چناں جاں بدہند

    کانجا ملک الموت نہ گنجد ہرگز

    پھر اسی موقع کے مناسب فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت شیخ علی مکی نے خواب میں دیکھا کہ گویا وہ عرش کو سر پر رکھ کر لے جارہے ہیں جب دن ہوا تو انہوں نے خیال کیا کہ یہ خواب کسی شخص سے بیان کرنا چاہئے جو اُس کی تعبیر دے، آخر کہا کہ حضرت بایزید بسطامی کے پاس چلو کہ اُن کے سوا اور کوئی شخص اِس کا م کا نہیں ہے، فرماتے ہیں جب میں گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ تمام شہر بسطام میں ایک شور و غوغا برپا ہے، میں نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ حضرت بایزید کا انتقال ہوگیا، شیخ علی نے یہ سن کر ایک نعرہ مارا اور روتے ہوئے روانہ ہوئے، جب حضرت بایزید کے جنازے کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ جنازے کو لوگ باہر لا رہے ہیں، شیخ علی نے بڑی مشقت اور دشواری سے کیونکہ لوگوں کی بے حد کثرت تھی، حضرت بایزید کے جنازے کو کندھا دیا اور دل میں کہا کہ میرے خواب کی تعبیر پوری ہوگئی، خواجہ بایزید کا جنازہ ہی خدا کا عرش ہے جس کو تو سر پر رکھے ہوئے لے جارہے ہو۔

    بعدازاں شیخ الاسلام نے فرمایا کہ تیس سال دعا گو عالم مجاہدہ میں رہا ہے، نہ دن کی خبر تھی نہ رات کی، نماز پڑھ لیتا تھا اور پھر اُسی عالم میں مشغول ہو جاتا تھا پھر فرمایا کہ جس روز خواجہ قطب الدین مودود چشتی نے رحلت فرمائی ہے اُس روز حضرت کا جسم نہایت مضمحل تھا اور حضرت منتظر بیٹھے تھے، ایک شخص ہاتھ میں حریری کاغذ لئے ہوئے آیا جس میں اسم اللہ لکھا تھا، اُس شخص نے سلام کر کے وہ کاغذ حضرت خواجہ کو دیا، حضرت نے ہاتھ میں لے کر اُس کا مطالعہ کیا اور نام اللہ پر آنکھیں رکھ کر جان بحق تسلیم کی، ایک شور عالم میں برپا ہوا کہ خوجہ قطب الدین نے رحلت فرمائی، الغرض جب غسل دے کر جنازہ تیار کیا تو کسی کی مجال نہ ہوئی کہ جنازے کو اٹھا سکے، سب لوگ حیرت میں تھے کہ ایک سخت آواز آنی شروع ہوئی، لوگ واپس ہوئے پھر نماز جنازہ پڑھی اور جنازے کے اٹھانے کا قصد کیا کہ جنازہ خود بخود ہوا میں معلق روانہ ہوا اور لوگ پیچھے پیچھے تھے اور جس قدر کفار اور غیر مذاہب کے لوگ تھے سب مسلمان ہوگئے، اُن سے دریافت کیا کہ تم نے کیا برہان دیکھی جو اسلام اختیار کیا؟ کہنے لگے ہم نے دیکھا خواجہ کا جنازہ فرشتے سر پر رکھے ہوئے لے جارہے ہیں، جب شیخ الاسلام نے یہ حکایت تمام کی ایک نعرہ مارا اور بے ہوش ہوگئے پھر ہوش میں آکر شعر پڑھا۔

    در کوئے تو عاشقاں چناں جاں بدہند

    کانجا ملک الموت نہ گنجد ہرگز

    حضرت خواجہ انہی فوائد کے فرمانے میں مشغول تھے کہ اذان ہوئی، شیخ الاسلام نماز میں مشغول ہوئے اور خلق و دعا گو واپس۔؎

    الحمد للہ علی ذٰلک

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے