راحت القلوب، پندرہویں مجلس :- ترکِ دنیا کی فضلیت
دلچسپ معلومات
ملفوظات : بابا فریدالدین مسعود گنج شکر جامع : نظام الدین اؤلیا
12 ذیقعدہ 655 ھجری
دولتِ پابوسی میسر آئی۔
مولانا بدرالدین غزنوی اور شیخ جمال الدین ہانسوی اور دیگر عزیز حاضرِ خدمت تھے اور ترک دنیا پر بحث ہور ہی تھی، فرمایا کہ جس روز سے حق تعالیٰ نے دنیا کو پیدا کیا ہے دشمنی کے باعث اُس کی طرف نظر نہیں کی پھر اَسی اثنا میں ارشاد کیا کہ امیرالمؤمنین حضرت علی کا قول ہے کہ میں دو چیزوں سے ڈرتا ہوں، ایک درازیٔ امل کی آرزو سے اور دوسرے دنیا اور خواہشِ نفس کی متابعت سےکیونکہ نفس بندے کو یادِ حق سے باز رکھتی ہے اور درازیٔ امل کی آرزو آخرت کو بھلا دیتی ہے پھر ارشاد ہوا کہ غزنین میں ایک بزرگ تھے، اس سے میں نے پوچھا کہ دنیا کی ہماری طرف پشت ہے اور آخرت کا ہماری طرف منہ ہے، ہم کسے عزیز رکھیں؟ جواب دیا کہ ’’آخرت کو‘‘ اور اسی کے بہتر بنانے کی کوشش کرو کیونکہ کل بروز قیامت وہ کوششیں کام آئیں گی اور دیکھو آج جو کام یہاں کئے جاسکتے ہیں کل اُن کا موقع نصیب نہ ہوگا پھر اسی محل میں حکایت بیان کی کہ خواجہ عبداللہ سہل تستری نے جو کچھ مال و منالِ دنیا اُن کے پاس تھا سب اللہ کی راہ میں دے دیا، اہلِ خاندان ملامت کرنے لگے کہ خرچ کے واسطے تو کچھ بچا لیا ہوتا، خواجہ نےکہا مجھے اس فکر کی ضرورت نہیں پھر اسی گفتگو میں ارشاد فرمایا کہ اسرارالعارفین میں خواجہ یحییٰ معاذ رازی کی ایک تحریر میرے مطالعے سے گزری کہ جب حکمت آسمان سے اترتی ہے تو ہر دل کو اپنا مسکن نہیں بناتی جن لوگوں کو ان چار امراض میں سے ایک مرض بھی ہوگا حکمت ان سے ہمیشہ دور رہے گی۔
1. حرصِ دنیا۔
2. فکرِفردا۔
3. مسلمانوں سے بغض و حسد۔
4. شرف و جاہ کی محبت۔
پھر فرمایا کہ برادر بہاؤ الدین زکریا کے ساتھ ایک دفعہ کہیں بیٹھا تھا کہ زہد پر یہ گفتگو چھڑ گئی کہ تین چیزیں زہد و درویشی کے لئے لازمی ہیں جس شخص میں یہ تین چیزیں نہ ہوں گی زہد بھی نہ ہوگا۔
1. دنیا کی شناخت پر اس سے ہاتھ اٹھانا۔
2. مولیٰ کی اطاعت کرنی اور ادب ملحوظ رکھنا۔
3. آخرت کی آروز مندی اور اس کا طلب کرنا۔
اس کے بعد ارشاد ہوا کہ ہمارے خواجگان میں سے خواجہ فضیل بن عیاض سے منقول ہے کہ قیامت کے دن دنیا نہایت زیب و زینت کے ساتھ آراستہ ہوکر میدان میں نکلے گی اور عرض کرے گی کہ اے پروردگار ! اب تو مجھے اپنا بندہ بنا اس پر خدا تعالیٰ جواب دے گا کہ میں تجھے منہ نہیں لگاتا، تیرے پیروؤں سے مجھے کبھی خوشی نہیں ہوئی، اتنے میں دنیا ریزہ ریزہ ہو جائے گی، پھر دعا گو کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ دنیا ترک کرو تاکہ قیامت کے روز دوزخ سے محفوظ رہو پھر ارشاد ہوا کہ جس قدر فتوحات اور نقد میرے پاس آتا ہے، میں اگر اسے جمع کروں تو خزانے بھر جائیں لیکن میں سب کچھ اسی کی راہ میں صرف کر دیتا ہوں پھر اسی محل میں فرمایا کہ خواجہ مودود چشتی شرح اؤلیا میں فرماتے ہیں کہ تمام بدی اور برائی ایک مکان میں جمع کرکے اس کی کنجی دنیا کو بنایا گیا ہے جو لوگ دانا اور دور اندیش ہیں وہ اُس مکان اور اُس مکان کی کنجی کے پاس نہیں پھٹکتے، امام زاہد کی تفسیر سامنے رکھی تھی اس میں یہ روایت دکھائی دی، نجی المخففون وھلک المثقلون یعنی سکبساروں نے نجات پائی اور گراں بار ہلاک ہوئے۔
بعد ازاں خدا تعالیٰ کی بزرگی میں گفتگو شروع ہوئی، ارشاد ہوا کہ خدا تعالیٰ سب سے بزرگ ہے لیکن جب یہ بات کل دنیا جانتی ہے تو اِس نعمت سے محروم کیوں رہتی ہے اور فکر و ذکر میں عمر کس لئے صرف نہیں کرتی پھر ارشاد ہوا کہ بعض بندے اللہ کے ایسے ہیں جو دوست کا نام سن کر جان و مال فدا کردیتے ہیں، چنانچہ اسرار تابعین میں مرقوم ہے کہ کسی درویش نے جنگل میں اپنا مسکن بنایا تھا اور ساٹھ برس سے عالمِ تفکر میں استادہ تھے، ناگاہ غیب سے ندا آئی یا اللہ ! درویش مذکور نے جو دوست کا نام نامی سنا ایک نعرہ مار کر گرپڑے، دیکھا تو جان بحق تسلیم ہوچکے تھے پھر اسی محل میں فرمایا کہ اگر اہلِ سلوک کبھی خدا کی یاد سے غافل ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم اِس وقت مردہ ہیں، اگر زندہ ہوتے تو مولیٰ کا ذکر ہم سے الگ نہ ہوتا پھر اسی موقع پر ارشاد کیا کہ بغداد میں ایک بزرگ تھے کہ ہزار بار ذکر اللہ ان کا روزانہ وظیفہ تھا، ایک دن وہ ناغہ ہوگیا، غیب سے آواز آئی کہ فلاں ابن فلاں نہ رہا، لوگ اُس آواز کو سن کر جمع ہوئے اور اُن بزرگ کے دروازے پر پہنچے مگر وہ زندہ تھے، سب حیرت میں پڑگئے اور بزرگ سے معذرت کرنے لگے کہ غلطی یا غلط فہمی ہوئی، انہوں نے تبسم فرمایا اور کہا کہ آپ صاحبان ٹھیک آئے جیسا کہ آواز میں سنا ویسا ہی جانو میرا وظیفہ ناغہ ہوگیا تھا، وہاں اعلان کردیا کہ میں مرگیا پھر اِسی گفتگو میں ارشاد ہوا کہ زبان پر مولیٰ کا ذکر رکھنا ایمان کی نشانی اور نفاق سے بے زاری اور شیطان سے حصار اور آتشِ دوزخ سے حفاظت ہے، اس کے بعد فرمایا کہ شرح مشائخ میں لکھا ہے کہ جب مومن ذکرِ الٰہی کے ساتھ زبان کھولتا ہے آسمان سے ایک ندا آتی ہے کہ اٹھو اور خوشی کرو کہ خدا تعالیٰ نے تمہارے گناہ بخش دیئے پھر فرمایا کہ جب میں سیستان میں تھا تو میں نے ایک درویش کو عالمِ سُکر میں کھڑا دیکھا، سوائے ذکر کے کوئی بات نہ کرتے تھے، الغرض جب ذکر میں سعادت ابدی ہو تو لازم ہے کہ ہم رات دن، اٹھتے بیٹھتے، کھڑے لیٹے، وضو بے وضو ہر حالت میں بجز وقتِ قضائے حاجت کے ذکر سے غافل نہ ہوں پھر اسی محل میں ارشاد ہوا کہ ایک بزرگ تھے جس شخص کو حدیث شریف میں کوئی مشکل درپیش ہوتی یہ اُسے حل کردیتے، ایک روز کنگھی کرنے کی نسبت گفتگو ہو رہی تھی، انہوں نے فرمایا کہ کنگھی کرنا ہمارے حضور اور دیگر پیغمبران کی سنت ہے جو شخص رات کے وقت داڑھی میں کنگھی کرے گا اللہ تعالیٰ اُس کو فقر کی آفت میں مبتلا نہ کرے گا، داڑھی میں جس قدر بال ہوتے ہیں اُن میں سے ہر ایک کے بدلے ہزار غلام آزاد کرنے کا ثواب دے گا اور اُسی قدر گناہ دور کرے گا اگر لوگ کنگھی کرنے کے اجر کو جان جائیں تو سب عبادتوں سے باز رہ کر اسی عبادت کو پکڑ لیں پھر فرمایا کہ ایک کنگھی دو آدمیوں میں مشترک نہ ہونی چاہئے کیونکہ یہ بات ان دو آدمیوں میں جدائی ڈال دے گی پھر ارشاد ہوا کہ حضرت رسالت مآب کےزمانے میں ایک عورت کے ہاں دو بچے ہوئے، اُس کے لواحقین نے آنحضرت سے دریافت کیا کہ اُن کو کیوں کر علیٰحدہ علیٰحدہ کریں، اتنے میں جناب جبرئیل تشریف لائے اور عرض گزار ہوئے کہ یار رسول اللہ حکم فرمایئے کہ اُن دونوں بچوں کے سروں میں ایک کنگھی کرو، دونوں علیٰحدہ ہوجائیں گے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور چند دنوں میں وہ علیٰحدہ ہوگئے۔
بعد ازاں نماز باجماعت کی بابت باتیں ہونے لگیں، شیخ الاسلام نے نہایت تاکید سے ارشاد فرمایا کہ اگر دوشخص ہوں تب بھی جماعت ہی سے نماز ادا کرنی چاہئے، اگرچہ دو آدمیوں کی جماعت پر جماعت کا حکم نہیں لگتا مگر ثواب جماعت ہی کا ملتا ہے، بعدہٗ حضرت نے یہ حکایت بیان فرمائی کہ ایک دفعہ میں لاہور کی طرف سفر کر رہا تھا کہ ایک عزیز صاحبِ نعمت سے ملاقات ہوئی، انہوں نے کہا کہ خداوند تعالیٰ کے ذکر سے چھ باتیں حاصل ہوتی ہیں۔
اول یہ کہ ایسی حالت میں پہنچ جاتا ہےکہ حضرت تعالیٰ و تقدس کو چشم دل سے دیکھنے لگتا ہے۔
دوسرے یہ کہ خداوند تعالیٰ اُسے گناہوں سے باز رکھتا ہے اور جو شخص ذکر کے وقت معاصی کا خیال نہ چھوڑے تو یہ اِس امر کی علامت ہے کہ خداوند تعالیٰ نے اُسے دور کر دیا ہے۔
تیسرے یہ کہ جو شخص کثرت سے ذکرِالٰہی کرے گا خدا کی دوستی اس کے دل میں مستحکم ہوگی۔
چوتھے جو خدا کا ذکر زیادہ کرتاہے خدا اُس کو عزیز رکھتا ہے۔
پانچویں یہ کہ ذکر کرنے والا جنات کے شر سے محفوظ ہوجاتا ہے۔
چھٹے یہ کہ خدائے تعالیٰ قبر میں اُس کا مونس ہوتا ہے پھر اِسی مضمون کے مطابق فرمایا کہ کوئی ذکر کلا م اللہ پڑھنے کے برابر نہیں ہے، اُس کی تلاوت کرتے رہنا چاہئے کہ اُس کا ثمرہ تمام طاعتوں سے بڑھ کر ہے۔
سورۂ ملک کی فضیلت:
اس کے بعد ارشاد ہوا میں نے شیخ الاسلام قطب الدین بختیار کاکی اوشی کی زبانِ مبارک سے سنا ہے کہ حدیث شریف میں رسولِ خدا سے وارد ہے کہ سورۂ ملک کا نام توریت میں ماثور اور پارسی میں ماثورہ ہے اور یہ سورت عذاب قبر سے محفوظ رکھنے والی ہے پھر فرمایا حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص رات کو سورہ مومنین پڑھے اسے ثواب ہوتا ہے گویا اس نے شب قدرپائی۔
اللہ کے ذکر کی فضیلت:
پھر ارشاد ہوا کہ بغداد میں ایک بزرگ اللہ اللہ بہت کہتے تھے، ایک روز راستے میں ان کا گز رہوا اور ایک لکڑی ان کے سَر پر ایسی گری کہ ان کا سر پھٹ گیا اور خون نکلنے لگا، سننے کی بات ہے کہ جو قطرۂ خون زمین پر گرتا تھا اس سے نقشِ اللہ بن جاتا تھا، واقعی یہ درست ہے کہ جو شخص جس کام میں مرے گا اُسی میں اُس کا حشر ہوگا۔
دعا کی فضیلت:
بعدہٗ دعا کے متعلق گفتگو شروع ہوئی، فرمایا میں نے فتاویٰ کبریٰ میں دیکھا ہے کہ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ لیس شئ اکبر عند اللہ من الدّعاءِ یعنی خداوند تعالیٰ کے نزدیک دعا سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں پھر ارشاد ہوا کہ حضرت شیخ الاسلام معین الدین سنجری، خواجہ عثمان ہارونی سے روایت کرتے ہیں کہ قوت القلوب میں لکھا ہے کہ ان اللہ یحب المسلمین فی الدعاءِ یعنی خداوند تعالیٰ مسلمانوں کو دعا کرنے کے وقت دوست رکھتا ہے اس کے بعد ارشاد فرمایا ایک دفعہ میں اور برادرم بہاؤالدین زکریا ملتانی ایک جگہ تھے کہ ایک اور صاحبِ بزرگ بھی وہاں پہنچے اور ہم تینوں میں دعا کے بارے میں گفتگو ہونے لگی، اُن بزرگ نے فرمایا جو شخص اِن چار باتوں کا خیال نہیں رکھتا، اللہ بھی اُسے چار چیزوں سے محروم کر دیتا ہے۔
1. زکوٰۃ
2. صدقہ و قربانی
3. نماز
4. دعا
ترکِ زکوٰۃ سے برکت جاتی رہتی ہے، ترکِ صدقہ سے صحت بگڑنے لگتی ہے، ترکِ نماز سے مرتے وقت ایمان سلب ہو جاتا ہے اور ترکِ دعا سے پھر دعا مستجاب نہیں ہوتی۔
سلامتی کا وظیفہ:
اس کے بعد ارشاد ہوا کہ بغدا دمیں ایک بزرگ کو شیر کے آگے ڈالا گیا تاکہ شیر انہیں ہلاک کر دے مگر وہ سات روز تک اُس کے آگے پڑے رہے اور اُس نے اُن کا بال بیکا نہ کیا، یہ سلامتی ان کی اس اسمِ باری تعالیٰ کے سبب سے تھی جو ہر وقت اُن کے پاس رہتا تھا، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ یا دائم بِلافناء ویا قائم بلازوال ویا امیر بلاوزیر یہ کہہ کر شیخ الاسلام چشم پُر آب ہوگئے اور بولے تیرا دشمن یہی نفس امارہ اور ابلیس لعین ہے۔
اسی اثنا میں اذان کی آواز آئی، شیخ الاسلام نماز میں مشغول ہوئے اور خلق و دعاگو رخصت۔
الحمد للہ علی ذٰلک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.