راحت القلوب، چودہویں مجلس :- بسلسلۂ عقل وعلم
دلچسپ معلومات
ملفوظات : بابا فریدالدین مسعود گنج شکر جامع : نظام الدین اؤلیا
10 ماہ ذیقعدہ 655 ھجری
دولتِ قدم بوسی حاصل ہوئی پھر علم و عقل کی گفتگو جاری تھی، فرمایا کہ ’’علم خدا کے نزدیک کل عبادتوں سے افضل اور بالا تر ہے‘‘ اس کے بعد شیخ الاسلام چشم پُر آب ہوگئے اور کہنے لگے کہ ’’علم وہ ہے جسے عالم نہیں جانتے اور زہد وہ ہے جس کو زاہد نہیں جانتے اور اصلِ کار ان دونوں سے باہر ہے، مرد کو چاہئے کہ ان دونوں سے دل اٹھائے پھر ارشاد کیا کہ کاش لوگوں کو علم کا درجہ معلوم ہوتا تو سب کاموں سے دست بردار ہوکر اُس کی تحصیل میں لگ جاتے، علم ایک ابر ہے جو رحمت کے سوا کچھ نہیں برستا جو اس ابر سے حصہ لیتا ہے گناہوں سے پاک ہوتا ہے پھر اِسی مضمون کے موافق ارشاد ہوا کہ ایک روز ہم اور شیخ جلال الدین تبریزی ایک جگہ بیٹھے تھے، ذکر ہوا کہ علم کی مثال شیشے کی قندیل میں ایک روشن چراغ کی سی ہے جس سے کل عالمِ ناسوت و مکوہت روشن ہیں جو اِس کے پرتو سے مستفیض ہو اس سے تاریکی کا اندیشہ نہیں پھر اسی محل میں فرمایا کہ علماء علم سے غافل ہیں، انہوں نے دنیا کو اپنا قبلہ گاہ بنا رکھا ہے اور دانائی کے غرور سے اپنے نفسوں کو موٹا کرلیا ہے، یہ کہہ کر شیخ الاسلام رونے لگے اور بولے کہ شرحِ علماء میں مرقوم ہے کہ فردائے قیامت کو اُن صلحا و علما کے لئے جو دنیا میں اہل دنیا کے ساتھ مشغول رہتے تھے اور اپنا منصبی کام نہ کرتے تھے حکم ہوگا کہ انہیں عرصات میں حاضر کرو پھر فرشتگانِ عذاب سے کہا جائے گا کہ اُن کی گردنیں آتشیں زنجیروں سے جکڑ کر دوزخ میں لے جاؤ پھر فرمایا اُن علماء سے مراد وہ علماء ہیں جو بظاہر پارسائی دکھاتے ہیں اور باطن میں علم پر عمل نہیں کرتے اور مکر و حیلے کے ساتھ دنیا کماتے ہیں، اس کے بعد ارشاد ہوا کہ قاضی حمیدالدین ناگوری راحت الارواح میں رقم طراز ہیں کہ انسان اگر اپنے علم پر مغرور نہ ہو اور اس کا جائز استعمال کرے تو خدا تعالیٰ اُسے حلال و حرام، حق و باطل اور نیک و بد کی صحیح تمیز عنایت فرما دیتا ہے۔
عقل کی بہت سی قسمیں ہیں مگر عالم کی علم مطلق ہے، عالم درحقیقت اُسے کہتے ہیں جو علمِ نبوی جانتا ہو اور علمِ نبوی کا تعلق آسمان سے ہے کیونکہ وہ کل ہمارے پروردگار نے رسالت مآب پر بذریعہ وحی نازل کیا تھا، بعد ازاں معرفت میں گفتگو ہونے لگی، فرمایا کہ آدمی اپنے آپ کو نہیں پہچانتا، ہوا و ہوس اُسے دوسری باتوں میں مبتلا کردیتی ہے ورنہ جو خود کو پہچان لیتا ہے اُسے خدا کی محبت ہوجاتی ہے اور کسی غیر کی اُس کے دل میں جگہ نہیں رہتی اگر ہژدہ ہزار عالم اُس کے سامنے آئیں تو وہ التفات نہ کرے پھر دعاگو سے مخاطب ہوکر ارشاد کیا کہ اہلِ معرفت وہ لوگ ہیں کہ جن کے آگے جبرئیل، اسرافیل اور میکائیل جیسے لاکھوں مقرب فرشتے بھی عرش سے لے کر تحت الثرا تک جمع ہوجائیں تو وہ انہیں موجود نہ سمجھیں اور نہ انہیں اُن کے آنے اور جانے کی خبر ہو پھر اسی محل پر فرمایا کہ ایک روز میں حضرت شیخ شہاب الدین سہر وردی کی خدمت میں حاضر تھا، انہوں نے کہا کہ جب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اپنے کسی بندے کو اپنا دوست بنائے تو ذکر کا دروازہ اُس پر کھول دیتا ہے اور حیرت و دہشت کی سرائے میں اُس کو جگہ دیتا ہے جو اُس کی عظمت و جلال کا محل ہے، اِسی طرح ہر بندہ خدا تعالیٰ کی حفاظت و حمایت میں آجاتا ہے پھر اِسی اثناء میں فرمایا کہ ایک روز میں شیخ الاسلام حضرت معین الدین سنجری کی خدمت میں حاضر تھا، انہوں نے فرمایا کہ اہلِ معرفت کو اوقات میں توکل کرنا چاہئے اور یہ علم علوی شوق سے حاصل ہوتا ہے، جب عارف کو یہ مقام مل جاتاہے تو اُسے اپنی خبر نہیں رہتی، خواہ اُسے آگ میں ڈال دو، پھر ارشاد ہوا کہ اہل معرفت گفتگو کا دعویٰ اُس وقت کرسکتے ہیں کہ پہلے اپنے تئیں خلق کو ثمرۂ معرفت سے بہرہ ور دکھائیں اور جولوگ ادّعائے محبت پر نکتہ چینی کرتے ہوں انہیں شکست دیں۔
بعد ازاں شیخ جلال الدین تبریزی کے اشغال کا حال فرمانے لگے کہ اُن کی رحلت کے موقع پر ایک مرید حاضر تھے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے شیخ کو ایسی حالت میں تبسم کناں دیکھ کر عرض کیا کہ اے مخدوم ! آپ اب دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کوچ کر رہے ہیں اور آپ کو رنج نہیں، چہرے پر الٹی ہنسی ہے، کہا میاں خدا تعالیٰ کے پہچاننے والوں کی یہی شان ہونی چاہئے، اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ وہ شخص بیشک عاشق و عارف ہے جس کے دل میں ہر چیز سے خدا تعالیٰ کی یاد پیدا ہو پھر ارشاد ہوا کہ میں نے شیخ الاسلام حضرت قطب الدین بختیار کاکی اوشی کی زبانِ مبارک سے سنا ہے کہ عقل کے درخت کو فکر کا پانی دیا کرو تاکہ وہ خشک نہ ہوجائے بلکہ روز بروز بڑھتا ہے اور غفلت کے درخت کو جہل کا پانی مناسب ہے اس کی اس سے جڑ بندھتی رہے اور توبہ کا درخت ندامت کے پانی سے پرورش پاتا ہے اور بار آور ہوتا ہے اور محبت کا درخت موافقت کے پانی سے پھولتا ہے۔
پھر اِسی محل میں فرمایا کہ حضرت خواجہ معین الدین سنجری کے واقعات میں مر قوم ہے کہ جس رات کو حضرت کا انتقال ہونے والا تھا اُس رات حضرت نے کئی بار جناب رسالت مآب کی خواب میں زیارت کی، آنحضرت فرماتے تھے کہ خدا کا دوست معین الدین آتا ہے، ہم اس کے استقبال کے لئے آتے ہیں اور جب حضرت کا وصال ہوگیا تو حضرت کی پیشانی پر لکھا ہوا دیکھا کہ حبیب اللہ مات فی حب اللہ۔
شیخ الاسلام اِن الفاظ تک پہنچے تھے کہ اذان کی آواز سنائی دی، خواجہ نماز میں مشغول ہوئے اور خلق و دعا گو واپس آئے۔
الحمد للہ علی ذٰلک۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.