راحت القلوب، گیارہویں مجلس :- درویشی اور جاگیر
دلچسپ معلومات
ملفوظات : بابا فریدالدین مسعود گنج شکر جامع : نظام الدین اؤلیا
15 ماہ شوال 655 ھجری
دولتِ قدم بوسی نصیب ہوئی۔
حضرت شیخ الاسلام بیٹھے ہوئے تھے کہ والیِ اجودھن نے اپنے کارکنوں کے ہاتھ دو گاؤں کی مثال اور دو سو تنکہ نقد حضرت کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے بھیجے، کار کنوں کو حکم ہوا کہ بیٹھ جاؤ وہ بیٹھ گئے اور مال منال سامنے رکھ دیا، شیخ الاسلام نے مسکرا کر فرمایا کہ میں نے آج تک یہ چیز کسی کی قبول نہیں کی اور نہ یہ میرے خواجگان کی سنت ہے، واپس لے جاؤ اور کہو کہ اس کے طالب اور بہت ہیں اُن کو دے دو۔
اس کے بعد شیخ الاسلام نے اِس حال کے مناسب ایک حکایت بیان فرمائی کہ ایک مرتبہ سلطان ناصرالدین محمود نے سلطان غیاث الدین بلبن کے ہاتھ جو ملتان کی طرف آئے تھے، چار دیہات کی مثال اور کچھ نقد دعاگو کے پاس بھیجا جس میں مثال خاص میرے لئے اور نقد درویشوں کے اخراجات کے واسطے تھی، میں نے اس کے لینے سے بھی انکار کردیا تھا، یہ کہہ کر شیخ الاسلام رونے لگے اور بولے کہ ان چیزوں کو ہم قبول کرنے لگیں تو ہم کو درویش کون کہے، ہم تو پھر اہلِ دَوَل کی صف میں شامل ہوجائیں (کارکنان والیِ اجودہن سے مخاطب ہوکر) حاشا و کلا یہ سب لے جاؤ اور کسی دوسرے کو عطا کردو، بعد ازاں ارشاد ہوا کہ ایک دفعہ دعاگو شیخ الاسلام قطب الدین بختیار اوشی کی خدمت میں حاضر تھا کہ سلطان شمس الدین انار اللہ برہانہ کے وزیر کو کبہ دولت کے ساتھ آئے اور عرض پرداز ہوئے کہ سلطان نے چھ سات دیہات کی مثال اور کچھ چیزیں بطریق نذر ارسال کی ہیں، حضرت شیخ الاسلام نے تبسم فرما کر ارشاد کیا کہ اگر ہمارے خواجگان انہیں لے لیا کرتے تو ہمیں بھی عذر نہ تھا مگر انہوں نے یہ رسم نہیں رکھی، ایسی صورت میں ہم اُن کی متابعت نہ کریں گے تو کل بروز قیامت کس منہ سے ان کے سامنے جاسکیں گے۔
حسن ادب
اس کے بعد مشارق الانوار کی حدیثوں پر گفتگو چلی، ارشاد ہوا مشارق الانوار میں جس قدر حدیثیں درج ہیں سب صحیح ہیں، ایک بزرگ مولانا رضی الدین اصفہائی سے روایت کرتے ہیں کہ جب مولانا کو کسی حدیث میں دقت واقع ہوتی اور لوگوں سے نزاع کا موقع آجاتا تو مولانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوکر خواب میں اُس حدیث کی صحت کر لیتے تھے، اُس کے بعد فرمایا کہ ایک دفعہ جناب رسالت مآب نے نماز پڑھنی چاہی، عبداللہ بن عباس کے سوا کوئی حاضر نہ تھا، حضور اُن کے ہاتھ پکڑ کر اپنے برابر کھڑا کرلیا، جب نماز شروع ہوئی تو عبداللہ بن عباس بخیالِ ادب پیچھے ہٹ آئے، حضور نے نیت توڑ کر پھر اُنہیں برابر کھڑا کرلیا، یہ پھر پیچھے ہٹ آئے، یہاں تک کہ تین چار بار ایسا ہوا، آخر آنحضرت نے دریافت فرمایا کہ تم کیوں پیچھے ہٹ جاتے ہو؟ عبداللہ بن عباس نے عرض کیا میری کیا مجال ہے جو رسولِ خدا کے برابر کھڑا ہو سکوں، حضور کو ان کا حسنِ ادب بہت پسند آیا اور اُن کے حق میں دعا فرمائی کہ اللھم فقہہ فی الدین یعنی اے خدا اِس کو دین کی سمجھ عطا فرما!
کشف و کرامت
اس کے بعد کشف و کرامت کا قصہ چھڑا، فرمایا کہ کرامت کو مکاشفہ نہیں کہتے اور یہ کام کم حوصلے والوں کا ہے، مشائخ عظام نے اِس کو کچھ وقعت نہیں دی، لہٰذا لازم ہے کہ جسے کشف ہو وہ اپنے تئیں کسی شاسر میں نہ لائے پھر ارشاد ہوا ایک دفعہ خواجہ حسن نوری دریائے دجلہ کے کنارے پہنچے، ایک ماہی گیر نے جال ڈال رکھا تھا، خواجہ حسن نوری نے کہا اگر مجھ میں کرامت ہے تو اب کے جال میں ڈھائی من کی مچھلی آئے گی، اِس اَمر کی خبر خواجہ جنید بغدادی کو ملی، اُنہوں نے کہا کہ کاش اب جال میں ایک سانپ آکر انہیں کاٹتا اور وہ شہید ہوکر مرجاتے، اب کسی کو کیا معلوم ہے کہ اُن کا انجام کیسا ہوگا پھر اِسی اثنا میں فرمایا کہ شیخ سعدالدین حمویہ کا قول ہے کہ کرامت کا ظاہر کرنا فرض کا ترک کرنا ہے پھر اِسی مضمون کے متعلق ارشاد ہوا کہ برادرم سعدالدین کہتے تھے کہ میرے شہر کا والی میرے ساتھ عقیدت نہ رکھتا تھا، ایک روز اُس کا میرے دروازے کے آگے سے گزر ہوا، اُس نے چوبدار کو یہ کہہ کر میرے پاس بھیجا کہ اُس صوفی کو باہر لے آؤ تاکہ میں دیکھوں کہ یہ کیسا شخص ہے، چوبدار نے اندر آکر یہ حال مجھے سنایا، میں نے اُس کی بات کی طرف التفات نہ کیا اور نماز میں مشغول ہوگیا، چوبدار نے جاکے بادشاہ سے کہہ دیا، بادشاہ خود اتر پڑا اور دعا گو کے پا س آیا، میں یہ دیکھ کر کھڑا ہوگیا اور خندہ پیشانی سے پیش آیا۔
الغرض ہم دونوں ایک جگہ بیٹھ گئے، میں نے خادم کو اشارہ کیا کہ سیب لے آؤ اور ایک سیب تراش کر بادشاہ کو کھلایا اور خود بھی کھایا، بادشاہ کے دل میں خیال آیا کہ اگر یہ شیخ صفائے قلب رکھتے ہیں تو یہ سیب مجھ کو دیں گے، اس کے دل میں اس خیال کا آنا تھا کہ میں نے ہاتھ بڑھا کر اس سیب کو اٹھایا لیا اور بادشاہ سے مخاطب ہوکر کہا میں ایک دفعہ سفر میں تھا کہ ایک شہر میں پہنچا، وہاں ایک جگہ بہت سے لوگ جمع تھے اور اُن کے بیچ میں ایک شخص گدھا ہاتھ میں پکڑے بیٹھا تھا جس کی آنکھیں بندھی ہوئی تھیں، اُس گدھے والے نے مجمع میں ایک شخص کو انگوٹھی دے دی اور گدھے سے کہا کہ اُسے تلاش کرے، گدھے نے ہر شخص کو سونگھنا شروع کیا، یہاں تک کہ انگوٹھی والے کے پاس پہنچا اور اُس کو سونگھ کر وہیں کھڑا ہوگیا اور اُس نے انگوٹھی لے لی۔
المختصر اس قصے کے بیان کرنے سے میرا مقصد یہ ہے کہ اگر میں اس وقت کوئی کشف و کرامت کی بات کہوں تو میری یہ حرکت مجھے اُس گدھے کے برابر رتبہ دے گی اور بس اور اگر نہیں کہتا تو تم خیال کرتے ہوکہ درویش صفائے قلب نہیں رکھتا، یہ کہہ کر میں نے وہ سیب بادشاہ کے سامنے ڈال دیا پھر شیخ الاسلام چشم پر آب ہوگئے اور کہنے لگے کہ مردانِ خدا اپنے آپ کو پوشیدہ رکھا کرتے ہیں اور کرامات کو کسی کے سامنے الم نشرح نہیں کرتے، شیخ الاسلام یہی فوائد بیان کر رہے تھے کہ اذان کی آواز آئی، حضرت نماز میں مشغول ہوئے اور حاضرین رخصت۔
الحمدللہ علی ذٰلک۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.