راحت القلوب، آٹھویں مجلس :- سلوکِ راہ طریقت
دلچسپ معلومات
ملفوظات : بابا فریدالدین مسعود گنج شکر جامع : نظام الدین اؤلیا
25 شعبان 655 ہجری
دولتِ پائے بوسی نصیب ہوئی۔
چند روز درویش شیخ بہاؤالدین زکریا کے پاس سے آئے ہوئے تھے اور سلوک پر بحث ہو رہی تھی، شیخ الاسلام نے فرمایا، راہِ طریقت محض تسلیم و رضا کا نام ہے اگر کوئی گردن پر تلوار رکھ دے تو بھی نارضامند نہ ہو اور دم نہ مارے۔
پھر ارشاد ہوا کہ جس کی یہ کیفیت ہو اُسے درویش جانو، اِسی اثنا میں ایک ضعیف شخص حاضر خدمت ہوا، چشم گریاں، دل بریاں، تعظیم بجا لایا شیخ نے فرمایا، قریب آؤ جب اس نے تعمیل ارشاد کی تو پوچھا کہ کیا حال ہے؟ ضعیف نے کہا اے میرے آقا ! بیس سال ہوگئے کہ بیٹے کی جدائی کی تکلیف سہہ رہا ہوں، معلوم نہیں مرگیا یا جیتا ہے، شیخ الاسلام نے مراقبہ کیا اور تھوڑی دیر بعد سر اٹھا کر ارشاد کیا، جا تیرا بیٹا آگیا، ضعیف خوش خوش چل دیا، گھر پہنچے کچھ عرصہ نہ گزرا تھا کہ کسی نے دروازے پر دستک دی، ضعیف نے آواز دی کون ہے؟ جواب ملا فلاں ابن فلاں، ضعیف باہر نکل آیا اور بیٹے کو گلے سے لگاکر اندر لے گیا اور دریافت کیا اتنے زمانے سے کہاں تھا؟ کہا یہاں سے ڈیڑھ ہزار کوس کے فاصلے پر، پوچھا پھر آج یہاں کیسے آگیا؟ بولا میں دریا کے کنارے کھڑا تھا، یکایک میرے دل میں تمہارا خیال پیدا ہوا اور وہ تکلیف کی حد تک بڑھ گیا، روتا تھا، ناگہاں ایک خرقہ پوش سفید رنگ بزرگ پانی سے نموار ہوئے اور فرمانے لگے کہ کیوں روتا ہے؟ میں نے حال بیان کیا، کہا اگر ہم تجھے ابھی پہنچادیں تو تو کیا کرے؟ مجھے یہ امر بہت مشکل معلوم ہوا۔ ان درویش نے کہا لاؤ اپنا ہاتھ مجھے دو اور آنکھیں بند کرلو، میں نے ایسا ہی کیا، دیکھتا کیا ہوں کہ گھر کے دروازے پر کھڑا ہوں۔
بڑے میاں سمجھ گئے کہ وہ بزرگ حضرت شیخ الاسلام ہی تھے، فوراً حاضر خدمت ہو کر قدم بوس ہوئے، اُن کے چلے جانے کے بعد شیخ الاسلام نے فرمایا کہ اگر کوئی طاعت یا ورد بندے سے فوت ہوجائے تو اُسے اُس کی موت تصور کرنا چاہئے پھر ارشاد ہوا جب میں شیخ یوسف چشتی کی خدمت میں تھا ایک صوفی اُن کے پاس آیا اور تعظیم بجا لاکر بولا، آج شب کو میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ کوئی کہتا ہے تیری موت نزدیک آگئی، شیخ یوسف چشتی نے پوچھا کہ کل تجھ سے کوئی نماز قضا ہوگئی تھی؟ اُس نے سوچ کر جواب دیا، بے شک تعبیر دی کہ موت سے اشارہ اسی کی طرف تھا، صاحبِ ورد سے کسی ورد کا چھوٹ جانا اُس کی موت کے برابر ہوتا ہے، چنانچہ روایت ہے کہ ایک زمانے میں قاضی رضی الدین سورۂ یٰسین کا وظیفہ پڑھتے تھے، اتفاقاً ایک دن ناغہ ہوگیا، شام کو گھوڑے پر سوار جارہے تھے کہ گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور آپ ایسے زور سے گرے کہ پائے مبارک ٹوٹ گیا، غور کیا تو مندرجہ بالا قصور کھلا کہ اس روز سورۂ یٰسین نہ پڑھی تھی۔
بعد ازاں شیخ الاسلام نے ارشاد کیا کہ اہلِ ورد کو مناسب ہے کہ جو کچھ وہ پڑھتا ہو اُسے اگر دن کے وقت نہ پڑھ سکے تو رات کو پڑھ لے، ہرگز ہرگز ترک نہ کرے کیونکہ اُس کا اثر اُس سے گذر کر تمام شہر والوں پر پڑتا ہے، ایک کے ساتھ بہت سی خلق اللہ کی شامت آجاتی ہے پھر اسی گفتگو کے تحت میں فرمایا کہ ایک زمانے میں ایک سیاح دعاگو کا مہمان تھا، اُس نے مجھے دمشق کا حال سنانا شروع کیا کہ جب میں وہاں پہنچا تو میں نے اُسے تباہ و برباد پایا، بیس سے زیادہ خوش گھر نظر نہ آئے، تحقیقات کرنے سے معلوم ہوا کہ وہاں کے اکثر مسلمان صاحبِ ورد تھے، ایک دفعہ ان میں سے اکثر نے معمول میں کوتاہی کی، بس پورا سال نہ گزرا تھا کہ مغل چڑھ آئے اور سب کو تہس نہس کرگئے، اِس کے بعد شیخ الاسلام نے کہا کہ حضرت شیخ معین الدین سنجری کا قاعدہ تھا کہ جب کوئی اُن کے ہمسایوں میں انتقال کرتا اُس کے جنازے کے ہمراہ جاتے اور لوگوں کے واپس چلے آنے کے بعد تک اُس کی قبر پر بیٹھے رہتے اور جو کچھ ایسے موقع کے لئے مقرر کر رکھا تھا پڑھتے، ایک مرتبہ اسی طرح ایک جنازے کے ساتھ جانا ہوا، اس کے متعلقین کے واپس آجانے کے بعد قبر پر پڑھتے تھے، شیخ الاسلام خواجہ قطب الدین اوشی کا بیان ہے کہ میں ہمراہ تھا، میں نے دیکھا کہ بار بار چہرہ مبارک متغیر ہوجاتا تھا، آخر یہ کہتے ہوئے کھڑے ہوگئے کہ الحمدللہ بیعت خوب چیز ہے، شیخ الاسلام نے مطلب دریافت کیا، فرمایا کہ جس وقت اُس آدمی کو دفن کیا گیا تو فوراً عذاب کے فرشتے آگئے، چاہتے تھے کہ اپنا کام شروع کریں، یکایک شیخ عثمان ہارونی نمودار ہوئے اور بولے یہ میرا مرید ہے، ان الفاظ کا زبان شیخ سے نکلنا تھا کہ فرشتوں کو حکم ہوا کہ شیخ سے کہہ دو کہ اس نے تمہاری مخالفت کی تھی، خواجہ نے فرمایا کہ کوئی مضائقہ نہیں اگر اس نے مجھے برا بھلا کہا تو اپنے تئیں پلے بھی تو میرے باندھا تھا، اِس لئے میں نہیں چاہتا کہ اُس پر سختی ہو ‘‘ندا آئی کہ ’’فرشتو ! جانے دو اور شیخ کے مرید کو چھوڑ دو، میں نے اُسے بخشا‘‘ یہ کیفیت بیان فرما کر حضرت شیخ الاسلام چشم پُر آب ہوگئے اور کہنے لگے کہ کسی کا ہوجانا بڑی بات ہے اور یہ مو جی زبان پر آئی۔
گرنیک شوم مرا از ایشاں گیرند
ورید باشم مرا بدیشاں بخشند
ایک دن شیخ الاسلام پر کیفیت طاری ہوئی، حاضرین کی طرف خطاب کرکے فرمایا اگر اس وقت قوال ہوتے تو ہم کچھ سنتے، اتفاق سے اُس روز قوال موجود نہ تھے، مولانا بدرالدین اسحٰق اُن مکتوبات اور رقعات کو جو خریطے میں تھے ملا حظہ کر رہے تھے، ایک خط نکل آیا جسے انہوں نے حضرت شیخ الاسلام کی خدمت میں پیش کیا، فرمایا تم خود پڑھو، مولانا ایستادہ ہوگئے اور پڑھنے لگے کہ فقیر حقیر ضعیف نحیف محمد عطا کہ بندۂ درویشاں است واز سر و دیدہ خاکِ قدمِ ایشاں، اس قدر سننا تھا کہ شیخ الاسلام کو وجد ہوگیا اور یہ رباعی پڑھنے لگے۔
آں عقل کجا کہ از کمالِ تورسد
واں دیدہ کجا کہ درجمالِ تو رسد
گیرم کہ تو پردہ برگرفتی زجمال
آں روح کجا کہ درجلال تو رسد
شیخ الاسلام پراِسی حالت میں ایک رات دن گزر گیا، اِس کے بعد شیخ الاسلام نے حضرت خواجہ قطب الاقطاب کی حکایت کہنی شروع کی، فرمایا شیخ قطب الدین اور شیخ جلال الدین تبریزی ملاقی ہوئے اور آپس میں اپنی اپنی سیاحت کا حال بیان کرنے لگے، دعا گو اُن کی خدمت میں حاضر تھا، شیخ جلال الدین تبریزی نے کہا جب میں قرش کی جانب رہا تھا تو راستے میں بہت سے بزرگوں سے نیاز حاصل ہوا، ان میں ایک بزرگ کو دیکھا جو غار میں رہتے تھے، میں نے اُن کے پاس جاکر قدم بوسی کی، جب میں پہنچا تو وہ نماز میں مصروف تھے، مجھے تھوڑی دیر انتظار کرنا پڑا جب نماز پڑھ چکے تو میں نے سلام کیا، جواب دیا علیکم السلام یا شیخ جلال الدین ! میں متحیر ہوا اور حیران رہ گیا کہ یہ میرا نام کیونکر جان گئے، رازِدل کو سمجھ کر بولے، نبّا نی العلیم الخبیر جس نے تجھے مجھ تک پہنچادیا، اُسی نے تیرا نام بھی مجھے بتا دیا، میں نے زمین چومی، حکم کیا، بیٹھ جاؤ، بیٹھ گیا وہ بزرگ کہنے لگے ایک مرتبہ میں صفاہان میں تھا، میں نے ایک درویش کو دیکھا، نہایت باعظمت کوئی پچپن سال کے قریب عمر تھی، خواجہ حسن بصری کے نواسوں میں سے تھے، مسلمان یا نا مسلمان جس کسی کو کچھ ضرورت پڑتی، اُن کا خیال کرتا، امداد طلبی کے لئے پاس تک نہ پہنچتا کہ کام ہوجاتا پھر کہا مجھے بہت بزرگوں نے پندونصائح کئے ہیں لیکن آخری شخص جس کا قول میرے دل سے محو نہیں ہوتا خواجہ شمس العارفین تھے، انہوں نے فرمایا درویش اگر چاہتاہے کہ خدا تک پہنچے اور اُس کا قرب حاصل کرے تو اُسے لازم ہے کہ دنیا سے بیزار ہوجائے اور اہلِ دنیا سے دور رہے کیونکہ درویش کے لئے سب سے زیادہ مضر شئے دنیا اور اہلِ دنیا کی محبت ہے، غرضیکہ اے جلال الدین ! خدا والوں نے جب سب کو چھوڑ دیا تو اُس وقت خدا کو پایا ہے، اس کے بعد فرمایا کہ میں ایک روز شب اُن کی خدمت میں رہا، افطار کے وقت میں نے دیکھا کہ دو جوکی روٹیاں عالمِ غیب سے ظاہر ہوئیں، اُن بزرگوں نے ایک میرے آگے رکھ دی اور کہا کہ افطار کرلو اور پھر فلاں گوشے میں بیٹھ کر مشغولِ عبادت ہوجاؤ، جب ایک ثلث رات گذر گئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ سبز کمبل کا لباس پہنے ہوئے اور سات شیروں کو ارد گرد لیتے ہوئے آئے اور ہمارے شاہ صاحب کے سامنے بیٹھ گئے، مجھے لرزہ چڑھا کہ الٰہی یہ کون بزرگ ہیں جو شیروں سے محبت کرتے ہیں، وہ قرآن شریف پڑھنے لگے، جب ایک بار ختم کرچکے تو اٹھ کھڑے ہوئے اور وضو کیا اور پھر اول سرے سے تلاوت کرنے لگے یہاں تک کہ صبح ہوگئی، میں بھی اُن کے پاس جا پہنچا اور نماز میں شریک ہوا بعد نماز میرے میزبان بزرگ نے مجھے بتایا کہ شیروں والے دریش حضرت خضر ہیں، کیا تم ان سے ملنا چاہتے ہو؟ میں نے یہ سنتے ہی ان سے دوبارہ مصافحہ کیا، بڑی شفقت سے پیش آئے اور بالآخر معہ شیروں کے واپس چلے گئے، میں نے رخصت چاہی، اُن بزرگوار نے کہا کہ اے جلال ! جاتے ہو تو جاؤ لیکن دیکھو بندگانِ خدا کی خدمت گزاری سے کبھی غافل نہ ہونا، اپنے تئیں اُن کا غلام بنائے رکھنا، اچھا اب تم ایک ایسی جگہ پہنچوگے جہاں دریا بہتا ہوگا، وہاں اگر تمہیں دو شیر ملیں اور کسی نقصان کے در پے ہوں تو میرا نام لے دینا پھر وہ کچھ نہ کہیں گے، شیخ جلال الدین فرماتے تھے کہ اس کے بعد میں زمین نیاز چوم کر روانہ ہوگیا، جب میں اُس مقام پر پہنچا تو واقعی دونوں شیر موجود پائے، مجھے دیکھتے ہی وہ دونوں غرّائے اور میری طرف لپک پڑے مگر میں چلایا کہ میں فلاں فلاں بزرگ کے ہاں سے آرہا ہوں، بس اتنا کہنا تھا کہ شیر سر کو میرے قدموں پر رکھ کر مَلنے لگے اور پھر خاموشی سے واپس چلے گئے اور میں بسلامتی وہاں سے نکل آیا، یہاں تک بیان کر کے شیخ الاسلام نے فرمایا کہ جب شیخ جلال الدین اپنے سفر کا حال کہہ چکے تو شیخ قطب الدین کی باری آئی، ارشاد ہوا کہ شروع شروع میں ایک شہر میں پہنچا، اُس میں ایک درویش رہتے تھے، اُن کے مسکن کے قریب ایک مسجد تھی جو بہت خستہ ہو رہی تھی اور اُس میں ایک منارہ تھا جو ہفت منارہ کہلاتا تھا مگر تھا وہ ایک ہی اُس پر چڑھ کر جو دعا کی جاتی تھی اُس کی بابت لوگوں کا خیال تھا کہ ایک دعا کا اثر سات دعاؤں کے برابر ہوتا ہے اور اگر فلاں فلاں دعا وہاں بیٹھ کر پڑھی جائے تو خواجہ خضر سے ملاقات ہوجاتی ہے، القصہ میں اس مسجد میں پہنچا اور دوگانہ ادا کر کے اُس منارے پر چڑھ گیا اور اس دعا کو پڑھ کر نیچے آیا، تھوڑی دیر انتطار کرتا رہا کہ اب خواجہ خضر آتے ہوں گے مگر خواجہ خضر آئے نہ کوئی اور آخر ناامید ہوکر دروازے سے باہر قدم رکھنے ہی کو تھا کہ ایک صاحب نظر آئے، جنہوں نے چھوٹتے ہی مجھ سے سوال کیا کہ اندر کیا کر رہے تھے؟ میں نے جواب دیا خواجہ خضر کا انتظار کر رہا تھا، دوگانہ نماز کا پڑھا، دعا کا ورد بھی کیا مگر وہ دولت میسر نہ آئی، اب گھر جاتا ہوں، مستفسر نے کہا کہ خواجہ خضر سے تمہیں کیا کام، وہ بھی تمہاری طرح سرگرداں پھر تے ہیں لیکن اندر گھسنے نہیں پاتے، میری اور مستفسر کی اتنی ہی باتیں ہوئی تھیں کہ یکایک ایک سبزپوش شخص نظر آئے، مستفسر نے آگے بڑھ کر ان کے پَیر چومے، انہوں نے میری بابت دریافت کیا کہ یہ دنیا چاہتا ہے یا کوئی اور چیز؟ مستفسر نے کہا صرف آپ کی ملاقات اِس کے سوا کچھ نہیں، گفتگو ہورہی تھی کہ اذاں کی آواز آئی چاروں طرف سے خود بخود درویش نمودار ہونے شروع ہوگئے، ایک نے تکبیر کہی، ایک آگے کھڑا ہوکر امامت کرنے لگا، تراویح کا زمانہ تھا، بارہ سیپارے پڑھے، میرے دل میں خیال گزرا کہ کاش اور زیادہ پڑھے جاتے مگر خیر نماز ختم ہوئی اور ہر شخص جدھر سے آیا تھا اُدھر چل دیا، میں بھی اپنی جگہ آگیا، دوسری شب وضو کر کے پھر پہنچا لیکن صبح تک بیٹھا رہا کوئی نظر نہ آیا، شیخ الاسلام اِس قدر فوائد بیان کرکے نماز کے لئے کھڑے ہوگئے، حاضرین نے بھی اپنی اپنی راہ لی۔
الحمدللہ علی ذٰلک۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.