راحت القلوب، چھٹی مجلس :- استغفرق و بے خودی
دلچسپ معلومات
ملفوظات : بابا فریدالدین مسعود گنج شکر جامع : نظام الدین اؤلیا
11 شعبان 655 ہجری
دولت پائے بوسی نصیب ہوئی۔
ان لوگوں کا تذکرہ جاری تھا جو نماز میں مشغول ہوتے ہیں تو بہ سببِ استغفراق خود کو بھی بھول جاتے ہیں، حضرت نے فرمایا جب میں غزنی میں مسافر تھا تو میں نے چند درویشوں کو دیکھا کہ بے حد ذاکر و شاغل تھے، شب کو انہیں کے پاس قیام کیا، صبح کے وقت نزدیک کے ایک حوص پر وضو کرنے گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں ایک اور نہایت ضعیف بزرگ بیٹھے ہیں، میں نے اُن کا حال دریافت کیا، کہنے لگے بہت عرصے سے مجھے عارضۂ شکم ہے، اس نے یہ کیفیت کردی ہے، میں نے وہ دن اُن کی صحبت میں گزارا، جب رات آئی تو معلوم ہوا کہ ہرشب ایک سو بیس رکعت نماز پڑھتے ہیں، جتنی مرتبہ قضائے حاجت کے لئے جاتے اتنی دفعہ آکر فوراً غسل کرتے اور دوگانہ نماز پڑھتے، چنانچہ میں نے اُس کا خوب تجربہ کیا، ایک دن اسی طرح وہ غسل کرنے تالاب میں اترے اور اس میں سے نکل کر جاں بحق تسلیم ہوگئے، یہ کہہ کر شیخ الاسلام رونے لگے اور ارشاد کیا کہ زہے راسخ الاعتقادی کہ آخر دم تک اس کی بندگی میں قاعدے اور ضابطے کو ترک نہ کیا اور اُسے کمال تک پہنچا کر جان دی پھر فرمایا تکلیف و زحمت اٹھانے کے بعد ہی انسان کو گناہ سے بچنے کا خیال ہوتا ہے جس سے اُس کی خیر ہوجاتی ہے، بعد ازاں ارشاد ہوا کہ ایک دن میں بخارا میں شیخ سیف الدین باخزری کے پاس حاضر تھا، کوئی شخص اُن کی خدمت میں آیا اور سلام کرکے بولا، اے امام ! میرے پاس کچھ مال ہے، اس میں عرصے سے گھاٹا ہو رہا ہے اور کبھی کبھی اعضاء بھی دکھتے ہیں، شیخ نے فرمایا کہ زکوۃ کی ادائیگی میں کوئی کمی ہوئی ہوگی اور مرض کا آنا تو دلیلِ ایمان ہے پھر اِسی گفتگو میں ارشاد کیا کہ حضراتِ تابعین نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ قیامت کے روز فقراء کو ایسے درجے ملیں گے کہ خلق ہاتھ ملے گی کہ کاش ہم دنیا میں فقیر کیوں نہ ہوئے اور مریضوں کو وہ اجر ملے گا کہ لوگوں کو حسرت ہوگی کہ ہم بھی زندگی بھر رنجور رہے ہوتے اور ان مرتبوں کو پہنچتے، اِس کے بعد فرمایا کہ آدمی کو چاہئے کہ ہر درد و رنج کے وقت اس کی علت پر غور کرے کیونکہ اپنے نفس کا علاج اپنے ہی سے خوب ہوتا ہے، یہ کہہ کر شیخ الاسلام چشم پُر آب ہوگئے اور یہ مثنوی زبان مبارک پر آئی۔
اے بسا درد کاں ترا دردست
اے بسا شیرکاں ترا آہوست
درویشوں سے عقیدت اور حسنِ ظن
بعد ازاں اِس مسئلے پر بحث شروع ہوئی کہ درویشوں سے ہمیشہ عقیدت اور حسنِ ظن رکھنا چاہئے تاکہ اُن کی برکت سے اللہ تم کو اپنے سائے میں لے لے، فرمایا شیر خاں والی اوچ و ملتان میرا مخالف رہتا تھا، میں نے بارہا یہ شعر اس کے حق میں دوہرایا۔
افسوس کہ از حالِ منت نیست خبر
آنگہ کہ خبرت شود افسوس خوری
آخر ایک ہی سال میں کفار نے اس پر چڑھائی کی اور اُسے برباد کردیا، پھر اِسی سلسلے میں ارشاد کیا کہ ایک دن میں سیوستان میں شیخ اوحد کرمانی کی خدمت میں پہنچا، شیخ نے مجھے گلے سے لگایا اور فرمایا کہ زہے سعادت کہ میرے پاس آئے، غرض کہ میں جماعت خانے میں بیٹھا تھا کہ دس درویش صاحبِ نعمت تشریف لائے اور آپس میں کرامت و بزرگی پر گفتگو کرنے لگے یہاں تک کہ اُن میں سے ایک نے کہا کہ اگر کوئی شخص صاحبِ کرامت ہے تو اُسے چاہئے کہ اُس کو ظاہر کرے، سب نے کہا اول تم ہی کچھ دکھاؤ شیخ اوحد کرمانی نے بھی اُن کی طرف رخ کیا اور بولے کہ اِس شہر کا حاکم اِن دنوں مجھ سے بگڑا ہوا ہے اور مجھے روز کچھ نہ کچھ تکلیف دیتا رہتا ہے لیکن آج وہ میدان سے سلامت نہیں آسکتا، اِن الفاظ کا شیخ کی زبان سے نکلنا تھا کہ ایک شخص باہر سے آیا اور خبر سنانے لگا کہ بادشاہ سیر و شکار کو گیا تھا اور اس وقت گھوڑے سے گرکر اُس کی گردن ٹوٹ گئی اور مرگیا، اس پر درویشوں نے دعاگو کی طرف دیکھا اور بولے تم کہو میں نے مراقبہ کیا اور تھوڑی دیر بعد سراٹھاکر کہا ’’ آنکھیں سامنے کرو‘‘ سب نے تعمیل کی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ میں اور وہ سب خانہ کعبہ میں کھڑے ہیں، آخر واپسی ہوئی اور سب نے اقرار کیا کہ بیشک یہ درویش ہے اس کے بعد میں نے اور شیخ اوحد کرمانی نے ان درویشوں سے سوال کیا کہ ہم اپنا کام کرچکے، اب تمہاری باری ہے، یہ سن کر سب نے اپنے اپنے سرخرقوں میں کرلئے اور اندر ہی اندر غائب ہوگئے، اس کے بعد شیخ الاسلام نے راقم دعاگو کو مخاطب کیا کہ اے مولانا نظام الدین ! جو خدا کے کام میں لگا ہوا ہے خدا اس کے کام بناتا رہتا ہے یعنی جو خدمتِ حق تعالیٰ میں کمی نہیں کرتا اور جس کے تمام افعال رضائے دوست کے موافق ہوتے ہیں اور جواپنے نفس کے لئے ہر وقت غازی بنا رہتا ہے، خدا بھی اُس کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کرتا۔
اس کے بعد فرمایا کہ ایک دفعہ میں بدخشاں گیا، وہاں بہت سے بزرگ اؤلیا اللہ تھے، چنانچہ عبدالوحد نواسۂ شیخ ذوالنون مصری جنہوں نے شہر کے باہر ایک غار میں اپنا مسکن بنا رکھا تھا جب مجھے اُن کی کیفیت معلوم ہوئی تو اُن کے پاس گیا، دیکھتا کیا ہوں کہ نہایت نحیف و نزار ہیں اور ایک پاؤں غار کے اندر اور ایک غار کے باہر کئے عالم تحیر میں کھڑے ہیں، میں نے نزدیک پہنچ کر سلام کیا، فرمایا کیسے آئے؟ اس کے بعد تین شبانہ روز منتظر رہا، کوئی کلمہ زبان سے نہ سنا، تیسرے دن عالمِ محو میں آئے اور بولے اے فرید ! میرے قریب مت آئیو ورنہ سوختہ ہوجائے گا اور نہ مجھ سے دور ہو کیونکہ پھر مسحور ہوجائے گا، ہاں میرا ماجرا سن، آج ستر سال ہوگئے کہ اس غار میں ایستادہ ہوں، ایک دن ایک عورت یہاں سے گزری، میرا دل اس کی طرف مائل ہوا، چاہا کہ باہر نکلوں، اتنے میں ہاتفِ غیب نے آواز دی کہ اے مدعی عہد ! تو تو کہتا تھا کہ میں نے غیراللہ کو چھوڑ دیا، بس اتنا سننا تھا کہ میرا باہر آیا ہوا پیر باہر رہ گیا اور اندر کا اندر، اس حال کو تیس سال گزر گئے، عالم تحیر میں ہوں اور ڈر ہے کہ قیامت کے دن اس منہ کو کیونکر سامنے کر سکوں گا بڑی شرمندگی ہے۔
اس کے بعد ملک المشائخ نے فرمایا کہ رات وہیں پوری کی، دیکھا کہ وقت افطار کچھ دودھ اور کچھ خرمے ایک طباق میں لگے ہوئے ان بزرگ کے سامنے آئے، خرمے شمار میں دس تھے، ارشاد کیا کہ میرے واسطے ہر روز صرف پانچ خرمے آیا کرتے تھے، آج یہ دس تمہاری وجہ سے بھیجے گئے ہیں، آؤ دودھ پیو اور روزہ افطار کرو، میں نے ادب سے اپنے سر کو زمین پر رکھا اور اُس کھانے کو کھا لیا، بعد ازاں وہ شیخ اپنے عالم میں مشغول ہوگئے، اتنے میں بدخشاں کا خلیفہ آیا اور سجدۂ تعظیم کرکے کھڑا ہوگیا، سوال کیا کہ کیا حاجت لائے ہو؟ بولا کہ والیِ سیستان نے میرا مال غصب کرلیا ہے، اجازت دیجئے کہ اس کا مقابلہ کروں، حضرت مسکرائے اور سامنے پڑی ہوئی ایک لکڑی کو سیستان کی طرف کرکے گویا ہوئے کہ میں مارے دیتاہوں، خلیفہ یہ سن کر چل دیا، کچھ زمانہ نہ گزرا تھا کہ لوگ اس کا مال لے کر آئے اور قصہ سنانے لگے کہ والیِ سیستان دربار عالم میں بیٹھا احکام جاری کر رہاتھا کہ ایک لکڑی دیوار میں نمودار ہوئی اور ایسے زور سے اس کی گردن پر پڑی کہ گردن جدا ہوگئی، اُس کے بعد آواز آئی کہ یہ شیخ عبدالواحد بدخشانی کا ہاتھ تھا جس نے اِس کو ہلاک کیا، بعد ازاں شیخ الاسلام نے فرمایا کہ میں چند روز اور اُن کی صحبت میں رہا، آخر اجازت عنایت ہوئی، اس کے بعد شیخ الاسلام نماز میں مشغول ہوگئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.