Sufinama

راحت القلوب، چوبیسویں مجلس :- عطائے خلعتِ خاص و دستار فضیلت

بابا فرید

راحت القلوب، چوبیسویں مجلس :- عطائے خلعتِ خاص و دستار فضیلت

بابا فرید

MORE BYبابا فرید

    دلچسپ معلومات

    ملفوظات : بابا فریدالدین مسعود گنج شکر جامع : نظام الدین اؤلیا

    2 ماہ ربیع الاول 656ھ

    دولت قدم بوسی میسر آئی، اِس بندے کو خلعت خاص کے ساتھ مشرف فرمایا، عزیزانِ اہلِ صفہ حاضر تھے، زبانِ مبارک سے ارشاد کیا کہ مولانا نظام الدین کو میں نے ہندوستان کی ولایت دی اور صاحب ِسجادہ بنایا، اِس ارشاد پر بندے نے دو بارہ قدم بوسی کی، فرمان ہوا کہ اے جہاں گیر عالم ! سر اٹھا اور فوراً ہی حضرت شیخ قطب الدین کی دستار جو اپنے سر پر باندھے ہوئے تھے عطا کی اور عصا ہاتھ میں دیا اور اپنے دستِ مبارک سے خرقہ پہنایا اور فرمایا کہ جاؤ دوگانہ ادا کرو، میں جب قبلہ رخ ہوا تو میرے ہاتھ پکڑ کر آسمان کی طرف نظر کی اور فرمایا کہ میں نے تم کو خدا کے سپرد کیا پھر فرمایا کہ یہ سب چیزیں میں تم کو اس سبب سے دیتا ہوں کہ تم آخری وقت میرے پاس نہ ہوگے اور یہ بھی فرمایا کہ میں بھی اپنے مرشد حضرت شیخ قطب الدین کے وصال کے وقت حاضر نہ تھا، اس وقت میں ہانسی میں تھا، الغرض اُس کے بعد مولانا بدرالدین اسحٰق کو حکم دیا کہ سند تحریر کریں پھر جب سند مجھ کو مل گئی تو میرا سر پہلو میں لے کر فرمایا کہ میں نے تم کو خدا تک پہنچا دیا پھر فرمایا جمال الدین سے ہانسی میں مل کر جانا پھر فرمایا کہ آج ٹھہر جاؤ کل رخصت ہونا پھر فرمایا کہ جب حضور رسول اللہ کی علالت زیادہ ہوئی تو حضور تین روز مسجد میں تشریف نہ لاسکے، تیسرے روز بلال نے حجرہ شریف کے دروازے پر جاکر عرض کیا کہ الصلوٰۃ یا رسول اللہ، رسولِ خدا اٹھے اور فرمایا کہ بلال سے کہو کہ ابوبکر اور عمر آئیں تاکہ ہم مسجد میں چلیں، ابوبکر اور عمر اور عثمان اور علی حاضر ہوئے اور حضور اقدس اُن کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر مسجد میں تشریف لائے اور چاہا کہ امامت کریں مگر طاقت نہ تھی، ابوبکر کا ہاتھ پکڑ کر آگے کر دیا، مسلمانوں نے یہ حال دیکھ کر ایک نعرہ مارا اور قریب تھا کہ ان کا زہرہ آب ہوجائے، الغرض رسولِ خدا واپس حجرے میں تشریف لائے اور سیاہ کمبل اوڑھ کر لیٹ رہے، تھوڑی دیر کے بعد ایک اعرابی دروازے پر حاضر ہوا اور کواڑوں پر ہاتھ مارا جس سے تمام در و دیوار بند ہوگیا، حضرت فاطمہ دروازے پر تشریف لائیں اور فرمایا کہ یہ موقع (گفتگو وغیرہ کا) نہیں ہے، ہر چند کہ حضرت فاطمہ اُس سے معذرت کرتی تھیں مگر وہ کچھ نہ سنتا تھا آخر یہ آوازحضور اقدس کے گوش گزار ہوئی، حضرت فاطمہ کو بلاکر فرمایا کہ اے جانِ پدر ! یہ عزیز اعرابی نہیں ہے بلکہ یہ وہ شخص ہے کہ تم دروازہ بند کر دوگی تو بھی دیوار میں سے چلا آئے گا، یہ وہ شخص ہے جو فرزندوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ کرتا ہے، تمہارے باپ کی حرمت پر اُس نے نگاہ رکھی ہے جو اجازت چاہتا ہے، اُس کو بلالو تاکہ یہ جس حکم کے واسطے آیا ہے اُس کو پورا کرے، حجرے میں سے ایک نعرہ بلند ہوا اور ملک الموت اندر آئے اور قدم بوس ہوئے، فرمان ہوا کہ بیٹھ جاؤ مگر ساتھ ہی یہ بھی تاکید کی گئی کہ جب تک اجازت نہ ملے اندر نہ جانا اور یہ عرض کیا تاکہ اگر حضور تشریف لے چلنا چاہیں تو میں روح قبض کروں ورنہ واپس چلا جاؤں، حضور نے فرمایا اتنی دیر ٹھہرو کہ جبرائیل آجائیں۔

    اسی وقت جبرئیل بھی حاضر ہوئے، حضور نے فرمایا کہ اخی کیف حالک؟ عرض کیا کہ یارسول اللہ ! فرشتے آسمانوں میں نور کے طباق لئے ہوئے آپ کی جانِ پاک کے منتظر ہیں، آسمان اور بہشت کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں، انبیا کی روحیں آ کے استقبال کے لئے کھڑی ہیں، حورانِ بہشتی مشتاقِ دیدار ہیں، رضوان نے جنت آراستہ کی تاکہ آپ تشریف لائیں، حضور نے فرمایا اخی جبرئیل ! میں یہ دریافت نہیں کرتا بلکہ تم یہ بتاؤ کہ میرے بعد میری امت کا کیا حال ہوگا ؟ جبرئیل نے عرض کیا یا رسول اللہ ! خداوند تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنی امت کو میرے سپرد کردو تاکہ قیامت کے روز میں اُن کو تمہیں ویسا ہی واپس کردوں جیسی کہ وہ تمہاری زندگی میں تھی، حضور نے فرمایا کہ ہاں، بس میرا مقصود یہی ہے پھر حضور نے ملک الموت کو حکم دیا کہ اب تم اپنا کام شروع کرو، یہ حکم ملتے ہی ملک الموت نے اپنا ہاتھ حضور کے پائے مبارک پر رکھا اور ہاتھ پیر کے اندر اتر گیا پھر ملک الموت نے روحِ مبارک قبض کی، حضور نے پانی کا ایک پیالہ بھروا کر پاس رکھ لیا تھا اور باربار ہاتھ اُس میں تر کرکے سینے پر ملتے تھے اور فرماتے تھے اللھم ھون علینا سکراتِ الموتِ یعنی اے خدا جان کنی کی تلخی مجھ پر آسان کر پھر جب روح حق مبارک میں پہنچی تو حضور نے ہونٹ ہلائے، حضرت فاطمہ فرماتی ہیں کہ میں نے کان لگائے تو سنا کہ فرماتے ہیں اے خدا محمد کے جان دینے کے طفیل میری امت پر رحم فرما اور آخری وقت تک یہی فرماتے رہے۔

    جب شیخ الاسلام نے یہ حکایت تمام کی، جملہ حاضرین مجلس سے ایک نعرہ بلند ہوا، شیخ الاسلام بے ہوش ہوگئے پھر جب ہوش میں آئے تو دعا گو کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ جن کے واسطے تمام عالم پیدا کئے جب انہیں کو عالم میں نہ رکھا تو پھر میں اور آپ کون ہیں کہ زندگی کا دم بھریں، پس ہم بھی اپنے آپ کو رفتگان میں شمار کرتے ہیں مگر زادِ راہ کا فکر کرنا بہت ضروری ہے، غفلت اور گفتگو میں وقت کھونا نہ چاہئے تاکہ کل قیامت کے روز شرمندہ نہ ہوں۔

    جب شیخ الاسلام نے یہ کلام ختم فرمایا شمس دبیر خدمت میں حاضر تھے، قدم بوس ہوکر بولے کہ مولانا نظامی کی ایک نظم دستیاب ہوئی ہے، حکم ہو تو عرض کروں، فرمان ہوا کہ پڑھو جب شمس دبیر نے نظم پڑھی تو گویا شیخ الاسلام میں جان آگئی، ایک پہر حال میں رہے، یہ وقت نہایت راحت کا تھا اور اس روز بارانیٔ خاص (برساتی) شمس دبیر کو عطا ہوئی اس کے بعد حضرت شیخ اسلام تلاوت میں مشغول ہوئے اور یہاں کے حاضر باش بندگان سے میں نے سنا ہے کہ پھر وقتِ انتقال تک حضرت شیخ الاسلام کسی کے ساتھ مل کر نہیں بیٹھے، صرف مشغولی حق میں مصروف رہے۔ واللہ اعلم

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے