Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

دلیل العارفین، مجلس (۱۱)

خواجہ غریب نواز

دلیل العارفین، مجلس (۱۱)

خواجہ غریب نواز

MORE BYخواجہ غریب نواز

    دلچسپ معلومات

    ملفوظات :- خواجہ معین الدین چشتی جامع :- قطب الدین بختیار کاکی

    روز چہار شنبہ سعادت قدم بوسی میسر ہوئی۔

    مولانا بہاؤالدین صاحب تفسیر شیخ احد کرمانی اور دیگر درویش حاضر مجلس شریف تھے، گفتگو عارفوں کے توکل کے بارے میں ہوئی، آپ نے ارشاد فرمایا کہ عارفوں کا توکل سوائے خدائے تعالیٰ کے اور کسی پر نہیں ہوتا اور نہیں انہیں کسی سے غرض ہوتی ہے، بعدہ فرمایا کہ متوکل وہ ہے جو رنج و راحت کی کسی سے نہ حکایت کرے اور نہ شکایت، بعدہ ارشاد فرمایا کہ حضرت ابراہیم سے حضرت جبرئیل نے پوچھا کہ آپ کی کوئی حاجت ہو تو بیان فرمائیں، آپ نے جواب دیا تجھ سے کچھ نہیں کیونکہ حضرت خلیل اپنے نفس سے غائب تھے اور باطنا بحضور حق تعالیٰ حاضر، اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ اہل توکل کا ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ اگر اس وقت انہیں کسی حربہ سے مار کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو تو بھی خبر نہ ہو، بعدہ فرمایا توکل عارفوں کا حق کے اس طور پر ہوتا ہے کہ وہ متحیر ہوتا ہے عالم سکر میں، بعدہ فرمایا کہ خواجہ جنید بغدادی سے پوچھا گیا عارف کون ہے؟ آپ نے جواب دیا عارف وہ ہے جس نے ان تین باتوں کو دل سے منقطع کیا ہو۔

    اول عالم سے۔

    دوسرے عمل سے۔

    تیسرے خلوت سے۔

    جب تک وہ ان تین باتوں سے دل کو علاحدہ نہ کر لے گا وہ متوکل نہ ہوگا، اس کے بعد فرمایا ایک بزرگ سے علامت عارف کی پوچھی، انہوں نے جواب دیا عارف وہ ہے جو سوائے حق کے دوسری طرف متوجہ نہ ہو، بعد فرمایا کہ میں نے زبانی ایک بزرگ کے سنا تھا کہ شوق کی چند باتیں ہیں جب تک وہ عارف میں نہ دیکھی جاویں اسے عارف نہیں کہہ سکتے، اول وقت راحت کے موت کو یاد کرے، دوسرے مولیٰ سے انس اختیار کرے اور تیسرے بے قرار ہونا محبت حق میں وقت آنے دوست کے اور خوشی حاصل ہونی خاص وقت میں جب کہ نظر اس کی حق پر ہو، بعد اس کے فرمایا کہ شیخ شہاب الدین سہروردی فرماتے ہیں کہ دنیا میں دو باتوں سے زیادہ کوئی امر خوشتر نہیں۔

    اول صحبت فقرا۔

    دوم حرمت اؤلیا۔

    بعد اس کے گفتگو توبہ کے بارے میں ہوئی، آپ نے ارشاد فرمایا کہ توبہ کئی امر سے ہوتی ہے اور اصل میں توبہ ایک امر سے انابت لانی ہے جیسے جاہلوں سے دور ہونا، صحبت باطلوں کی ترک کرنی، منکروں سے منہ پھیر لینا، بعدہ پیغمبر نے فرمایا ہے ضعیف ترین آدمیوں میں سے وہ ہے جو بولنا چھوڑ دینے پر قادر ہو یعنی ترک صحبت کرے، بعدہ فرمایا اس راہ میں دو چیزیں مضبوط کرنی ہوتی ہیں۔

    اول ادب عبودیت۔

    دوم تعظیم حق معرفت۔

    بعد اس کے ارشاد فرمایا حضرت شیخ شبلی سے پوچھا گیا کہ شوق محبت سے بالا تر کیوں ہے، آپ نے فرمایا کہ اس لئے کہ وہ محبت سے پیدا ہوتا ہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا حضرت آدم سے زلت واقع ہوئی، آواز عصی آدم ربہ آئی، تمام چیزوں نے حضرت آدم کو دیکھا مگر سونے اور چاندی نے منہ پھیرا، حق تعالیٰ نے ان پر وحی بھیجی تم نے حضرت آدم کو کیوں نہیں دیکھا، جواب دیا جو شخص عاصی ہوگا ہم اسے نہ دیکھیں گے، حق تعالیٰ نے ان کا جواب سن کر قسم یاد کی، میں تمہاری قیمت مقرر کروں گا اور بنی آدم کو تمہارا خادم بناؤں گا، بعد اس کے فرمایا کہ جب محب مملکت کا دعویٰ کرے مقام محبت سے گر پڑے گا، بعد اس کے فرمایا محبت کا دعویٰ وفا ہے وصال کے ساتھ اور حرمت باطل کی وصال سے یعنی مشاہدہ فقر، محب ہے کہ نگاہ رکھتا ہے اپنے سر کو اور خیال رکھتا ہے اپنے نفس پر گذراننے نماز فرائض میں، بعد اس کے فرمایا سیدالطائفہ جنید بغدادی سے پوچھا گیا کہ رضائے محبت کیا ہے، آپ نے جواب دیا اگر ساتوں دوزخوں کو باہمہ عظمت و ہیبت اس محب کے داہنے ہاتھ پر رکھیں وہ نہ کہے میرے بائیں ہاتھ پر بھی رکھو، جب تک مرضی الٰہی اسی ہاتھ پر رکھے رہے، بعد اس کے فرمایا اول چیز جس پر بندہ فریفتہ ہے کیا ہے؟ فرمایا معرفت ہے، دلیل اس کی آیت وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون، بعدہ فرمایا حق تعالیٰ نے جملہ چیزوں کے اندر اپنی قدرت کاملہ سے صدہا باتیں پوشیدہ کر رکھ ہیں، بعدہ فرمایا اہل محبت وہ لوگ ہیں جو بلا واسطہ دوست کا کلام سنتے ہیں۔

    الحدیث عن قلبی ربی یعنی دل عاشق کا سوائے سخن حق کے کچھ اور نہیں سنتا۔

    بعد اس کے فرمایا صاحب محبت مرتے ہی بخشا جاتا ہے، بعد اس کے فرمایا جنگل میں ایک درویش رحلت کردہ کی لاش کو دیکھا کہ ہنس رہی تھی، پوچھا تم مرچکے ہو اب کیوں کر ہنستے ہو، جواب دیا محبت حق تعالیٰ میں ایسا ہی ہوتا ہے، بعد اس کے ارشاد فرمایا کہ دل عارف ایسا ہی ہونا چاہئے کہ اپنے حال سے فانی اور مشاہدہ دوست میں باقی ہو اور حق تعالیٰ اس کے تمام اعمال پر مستولی، اسے اپنی ذات پر اختیار نہ ہو اور عرش تک قرار نہ پکڑے یہ سلوک کا راستہ ہے، بعدہ فرمایا کہ حضرت مالک بن دینار سے پوچھا گیا کہ ملازمت پروردگار کی کیونکر ہوگی، آپ نے جواب دیا ہر آئینہ ملازمت عبادت سے حاصل ہوگی، یعنی وصال دوست میسر ہوگا، بعد اس کے فرمایا حضرت رابعہ بصری سے پوچھا گیا کہ اعمال میں سب سے اچھا عمل کون سا ہے، آپ نے فرمایا قائم رکھنا اوقات کا اور فرمایا جو دعویٰ بزرگی کا کرے اسے اندوہ باقی ہے جس اس کی تمام مرادیں تمام ہوجاویں گی اس وقت وہ اس دعوے میں سچا ہوسکتا ہے ورنہ جھوٹا ہے اور فرمایا مرد وہ ہے جس کی تمام مرادیں فنا ہوچکی ہوں مگر یہ مراد حق کے باقی ہوں، نام اس کا وہ ہے جو حق تعالیٰ رکھے اور وفائے بندگی کے دیگر امور سے سرورکار نہ رکھے کیونکہ اہل محبت کا نام نہیں ہوتا اور نہ رسم و جواب، بعد اس کے ارشاد فرمایا میں نے زبانی خواجہ عثمان ہرونی کے سنا ہے، آپ فرماتے تھے اہل عشق سوائے دوست کے اور کسی سے دل نہیں لگاتے کیونکہ جو بغیر دوست کے شاد ہوتاہے اس سے تمام اندوہ نزدیک ہوجاتے ہیں اور جو دوست انس نہ رکھے اس سے نزدیک ہوتی ہے اور جو شخص دوست نہ رکھے وہ کچھ بھی نہیں، بعدہ فرمایا عارف وہ ہے جو صبح اٹھے اور رات کی باتیں ان سے فراموش ہوگئی ہوں یعنی خیال دوست میں ایسا مستغرق ہو کہ ادھر کہے اور ا دھر بھولے، بعد اس کے خواجہ بزرگ آنکھوں میں آنسو بھر لائے اور فرمایا توشہ تیار رکھو اور موت کے لئے ہمیشہ آمادہ رہو، بعدہ فرمایا اہل محبت کا ایک گروہ ہے کہ درمیان حق کے اور ان کے کوئی حجاب نہیں، بعدہ فرمایا عارف محبت میں وہ ہے جسے کبھی عجب نہ ہو کیونکہ تسلیم ایک بات سے عارف نہیں ہوتا اور جب سب امور کو تسلیم کرلیا تو عجب کس بات سے رہے گا، بعدہ ارشاد فرمایا کہ سب سے بہترین اوقات میں یہ بات ہے کہ وساوس نفس جاتے رہیں اور خلق تجھ سے چھوٹ جائے، بعدہ فرمایا جسے محبت ہوتی ہے اسے فقر سے وحشت نہیں ہوتی، بعدہ فرمایا عارفان الٰہی کا فرمودہ ہے یقین ایک نور ہے، جب بندہ کا دل اس سے منور ہوجاتا ہے وہ اس کے ذریعہ سے درجہ محبوں اور متقیوں کا حاصل کرتا ہے، بعدہ فرمایا آدمی مٹی اور پانی سے بنایا گیا ہے جس کے وجود میں پانی کی زیادتی ہے وہ عبادت میں شاغل ہوگا مگر زود یقین ہوگا اس وجہ سے مقصود کو نہ پہنچے گا اور جس کے وجود میں مٹی کی زیادتی ہوگی، وہ نیک ہوگا سختی کے وقت اسے پہنچاننا چاہئے، بعدہ فرمایا حق تعالیٰ نے ابر کو پیدا کیا اور اس میں طرح طرح کے الوان جمع کئے، جب سب الوان آمیختہ ہوئے پانی ہوگئے اس وجہ سے کہ دنیا میں پانی نہ تھا ا س کے پینے میں لذت رکھی گئی مگر وہ لذت آج تک کسی سے دریافت نہیں ہوئی، پانی سے ہر ایک چیز زندہ ہے، بعدہ ایک شخص نے جو اسی مجلس میں حاضر تھا اٹھ کر آپ سے دریافت کیا، مجنوں کون ہے، آپ نے فرمایا مجنوں وہ ہے جو ابتدائے عشق میں ناچیز ہوجاوے اور مرتبہ دوم و سوم میں ناپیدا، بعدہ پوچھا فنا اور بقا کیا چیز ہے، آپ نے فرمایا بقا حق ہے، بعدہ پوچھا گیا تجرید کیا ہے آپ نے ارشاد فرمایا صفات محبوب کی محب کے دل میں بیٹھ جاویں فاذا احببتہٗ کنت لہ سمعاً و بصراً، بعدہ فرمایا ملتان میں ایک بزرگ کی زبانی سنا کہ توبہ اہل محبت کی تین قسم پر منقسم ہے۔ اول ندامت، دوم ترک معصیت، سوم خود کو مظالم اور خصومت سے پاک کرنا، بعدہ فرمایا علم ایک محیط شے ہے اور معرفت محیط کا اک جز ہے، پس خدائے بزرگ کی شان کا بیان کہاں اور بندہ کہاں۔

    چہ نسبت خاک را با عالم پاک۔یعنی علم ہر شئے کا خد اکو ہے البتہ معرفت موافق حوصلہ کے آدمی ہوسکتی ہے۔

    بعدہ فرمایا جب تک عارف کو سر خالص حاصل نہیں ہوتا، کوئی عمل اس کا خالص نہیں ہوسکتا اور فرمایا جس کو خدائے تعالیٰ دوست رکھتا ہے اس کے سر پر بلاؤں کی بارش کرتا ہے، بعدہ فرمایا اہل سلوک میں توبہ نصوح تین باتوں سے مراد ہے، اول کہ فوری واسطے اس امر کے روزہ رکھنے میں تکلیف نہ ہو، دوم کم سونا واسطے کرنے طاعت کے، سوم کم بولنا واسطے کرنے دعا کے اور یہی تین باتیں ہیں اول خوف، دوم رجا، سوم محبت، ضمن اول خوف میں ترک گناہ کرنا ہے تاکہ آتش دوزخ سے رہائی ملے، ضمن دوم رجا سے مراد طاعت ہے تاکہ داخل بہشت ہووے اوریہی فوز عظیم ہے، ضمن سوم محبت ہے اجتہاد اور فکر کرنا تاکہ رضائے حق حاصل ہو اور عارف محب میں وہ ہے جو کسی چیز کو دوست نہ رکھے مگر ذکر حق، جب آپ یہ فرما چکے آب دیدہ ہوئے اور فرمایا اب میں مقام کو سفر کرتا ہوں جہاں میرا مدفن ہوگا، یہ فرماکر سب کو وداع کیا، میں اور کئی درویش ہمرکاب خواجہ ہوئے، دو ماہ سفر میں تھے بعدہ اجمیر پہنچے اور سکونت اختیار کی، اس زمانہ میں اجمیر ہندؤں کا مسکن تھا، کوئی مسلمان نہ تھا، جب قدوم مبارک آپ کے وہاں پہنچے اس قدر مسلمان ہوئے جس کا شمار نہیں۔

    الحمدللہ علی ذٰلک۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے