Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

دلیل العارفین، مجلس (۱۰)

خواجہ غریب نواز

دلیل العارفین، مجلس (۱۰)

خواجہ غریب نواز

MORE BYخواجہ غریب نواز

    دلچسپ معلومات

    ملفوظات : خواجہ معین الدین چشتی جامع : قطب الدین بختیار کاکی

    روز پنج شنبہ سعادت قدم بوسی حاصل ہوئی۔

    بہت سے درویش حاضر خدمت تھے، گفتگو صحبت کے بارے میں ہوئی، آپ نے ارشاد فرمایا کہ حدیث شریف میں آیا ہے للصحبۃ تاثرٌ یعنی صحبت میں تاثیر ہے، اگر کوئی بدکار صحبت نیک لوگوں میں بیٹھنا اختیار کرے، خدائے تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ وہ نیک بخت ہوجاوے گا اور اس طرح اگر کوئی نیک صحبت بدوں کی اختیار کرے تو وہ بد ہوجاوے گا، حاصل امر یہ ہے کہ جیسی صحبت ہوگی ویسا ہی اثر ہوگا، جو کچھ حاصل ہوا صحبت سے ہوا، جس نے نعمت پائی نیک لوگوں کی صحبت سے پائی، بعدہ فرمایا اگر چند بدکار صحبت نیک لوگوں کی اختیار کریں امید ہے وہ نیک ہوجائیں گے، اس طرح نیک بدوں کی صحبت میں بیٹھنے سے بد ہوجاویں گے، بعد اس کے فرمایا کتب سلوک میں مرقوم ہے صحبت نیکوں کی نیک کام کرنے سے اچھی ہے اور صحبت بدوں کی بد کام کرنے سے بدتر ہے اور بعد اس کے حکایت زمانہ عمر فاروق کی بیان فرمائی، آپ کے عہد خلافت میں بادشاہ عراق گرفتار ہوکر آیا، آپ نے اسے دعوت اسلام کی اور فرمایا کہ اگر مسلمان ہو جاؤگے تو مملکت عراق تم کو دی جاوے گی، بادشاہ نے جواب دیا اسلام مجھے قبول نہیں، حضرت عمر فاروق نے فرمایا کہ اگر ایمان نہ لاؤ گے تو گردن تمہاری اڑا دی جاوے گی، اس نے مرنا قبول کیا، جلاد آیا بادشاہ نے اس وقت کہا میں پیاسا ہوں پانی پلوائے، اہل خدمت کانچ کے آب خورہ میں پانی لائے، بادشاہ نے کہا اس میں نہ پیوں گا، حضرت نے فرمایا کہ یہ بادشاہ ہے اس کے واسطے چاندی یا سونے کے آب خورہ میں پانی لاؤ، ایسا ہی کیا گیا، اس نے پھر انکار کرکے کہا میرے واسطے مٹی کے پیالہ میں پانی لاؤ، جب مٹی کے پیالہ میں پانی آیا بادشاہ نے حضرت عمر کی جانب مخاطب ہوکر کہا قسم کھائے جب تک میں یہ پانی نہ پی چکوں آپ مجھے مارے جانے سے امان دیویں، آپ نے قسم یاد کی کہ میں نے اس پانی پینے تک امان دی، بادشاہ نے جب یہ سنا پیالہ زمین پر دے مارا اور حضرت عمر سے کہا کہ آپ نے مجھے وعدہ دیا تھا کہ جب تک میں یہ پانی نہ پی لوں آپ مجھے نہ ماریں گے، حضرت عمرفاروق اس کے اس تیز ذہن سے متعجب ہوئے، قتل سے امان دے کر ایک بزرگ صحابی کی صحبت میں رہنے کو ارشاد فرمایا، چند روز میں صحبت نے اثر کیا، بادشاہ نے حضرت عمر کو کہلا بھیجا کہ آپ مجھے طلب فرمائے، حضرت نے بلوایا اور اسلام عرض کیا، بادشاہ بصدق دل مسلمان ہوا، جب مشرف باسلام ہوچکا حضرت عمر نے فرمایا مملکت عراق آپ کو دی جاتی ہے، آپ بادشاہی کیجئے، بادشاہ نے جواب دیا، اب مجھے بادشاہی سے کچھ سروکار نہیں، اگر آپ سے ہوسکتا ہے تو ایک اجڑا خراب گاؤں مملکت عراق میں عطا فرمائے کہ زندگی دو روزہ وہاں بسر کروں، آپ نے ارشاد فرمایا کہ اجاڑ گاؤں کی تلاش ہو، ہر چند ڈھونڈہا نہ پایا، لاچار ہوکر عرض کی کہ مملکت عراق میں کوئی گاؤں اجاڑ نہیں، مجبور ہیں، بادشاہ نے کہا مقصود میرا تلاش کرانے سے یہی تھا کہ آپ کو معلوم ہوجاوے کہ مملکت عراق سرسبز و شاداب ہے، ذمہ خداوندی بادشاہ پر یہ ہے کہ اپنی مملکت کو سرسبز و شاداب رکھے، اب میں اپنے ذمہ سے سبک دوش ہوا، مملکت عراق عمدہ حالت میں آپ کو تفویض کرتا ہوں، اب آپ ملک عراق کے جواب دار ہیں، مجھ سے واسطہ نہیں، بعد اس کے ارشاد فرمایا میں نے زبانی خواجہ عثمان ہرونی سنا ہے کہ بندہ پر فقیر کا لفظ اس وقت صادق آتا ہے جب تک آٹھ سال تک بائیں ہاتھ کا فرشتہ جو بدی تحریر کرنے پر مامور ہے اس کے نامہ اعمال میں ایک بدی بھی تحریر نہ کرے، بعدہ ذکر فرمایا کہ عارفان حق وہ ہیں جو حق سے کسی چیز کو الٹا نہیں مانگتے، بعد اس کے فرمایا جو عارف عبادت نہیں کرتا جان لو وہ حرام روزی کھاتا ہے، بعدہ ارشاد ہوا خواجہ جنید بغدادی سے پوچھا گیا پھل محبت کا کیا ہے، فرمایا پھل محبت کا وہ ہے جو اسے کھاتا ہے حق تعالیٰ اسے اشتیاق و سرور بخشتاہے اس قدر جتنا اس کا ظرف ہو اور فرمایا جس کو خدا دوست رکھتا ہے بہشت اس سے ملاقات کی آروز کرتی ہے، بعد اس کے ارشاد فرمایا محبت حق اہل سلوک اور اہل معرفت میں کوئی فرق نہیں ہے، ہر محبت والا مطیع و فرماں بردار ہے، بعد اس کے ارشاد فرمایا کہ کتاب محبت تحریر کردہ استادی مولانا اشرف الدین جو مصنف شرعۃ الاسلام ہیں لکھا دیکھا ہے کہ حضرت شبلی سے پوچھا گیا کہ کیا سبب ہے کہ آپ باوجود اس قدر طاعت و عبادت کے خوف زدہ ہیں اور ہمیشہ روتے رہتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ دو چیزوں نے مجھے ڈرا رکھا ہے، اول کہیں ایسا نہ ہو میں راندہ ہوجاؤں اور میرے حق میں کہا جاوے تو مجھے نہیں چاہیے، دوسری وجہ یہ ہے کہ دیکھا چاہئے میں اپنا ایمان قبر میں سلامت لے جاوں گا یا نہیں، اگر سلامت لے گیا تو محنت ٹھکانے لگی ورنہ اکارت گئی۔ بعد اس کے ارشاد فرمایا کہ شیخ شبلی سے ایک شخص نے سوال کیا کہ علامت شقاوت کی کیا ہے، آپ نے جواب دیا کہ گناہ کر کے امید وار قبولیت ہونا یہ بڑا شقاوت کا نشان ہے۔ بعدہ اس شخص نے دریافت کیا اصل عارفوں کی کیا ہے، آپ نے جواب دیا ہمیشہ خاموش اور متفکر رہنا، اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا عزیز ترین دنیا میں تین چیزیں ہیں۔

    اول عالم کا سخن جو وہ اپنے علم سے بیان کرے۔

    دوسرا وہ شخص جس کو طمع نہ ہو۔

    تیسرا وہ عارف جو ہمیشہ دوست کی ثنا و صفت بیان کرتا رہے۔

    اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت ذوالنون مصری مسجد کنکری واقع بغداد میں مع یاران طریقت بیٹھے ہوئے تھے، گفتگو محبت کے بارے میں ہو رہی تھی، ایک صوفی نے اٹھ کر عرض کیا یا حضرت ! صوفی اور عارف کی تعریف بیان فرمائیں، آپ نے فرمایا کہ صوفی اور عارف ایسے لوگ ہیں جن کے دلوں سے بشریت نکال لی گئی ہے، ہواس و حرص نفسانی سے وہ آزاد ہوچکے ہیں، انہیں کسی امر سے کچھ واسطہ نہیں، بعد اس کے فرمایا تصوف نہ علم ہے اور نہ رسم، یہ مشائخ کے اخلاق سے مراد ہے، تخلقوا باخلاق اللہ سے یہ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق میں سے شمہ تو برتو، یہ نہ علم سے ہوسکتا ہے نہ رسم سے کیونکہ علم اور رسم سے خلق نہیں سکھلایا جاتا، یہ خدائے امر ہے، بعد اس کے ارشاد فرمایا کہ عارف دنیا کا دشمن ہے مولیٰ سے اس کی لولگی ہے، اس نے دنیا پر لعنت بھیجی اس کے غل و عش سے کچھ علاقہ نہیں رکھتا، اس کے بعد کسی نے پوچھا عارف کو گریہ بہت ہوتا ہے، آپ نے فرمایا مگر جب وظیفہ وصال حاصل ہوتا ہے گریہ موقوف ہوجاتا ہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا ایک گروہ خدائے تعالیٰ کے عاشقوں کا ہے، ان کو دوستی حق نے بالکل خاموش کردیا ہے، وہ عالم کی موجودات کو نہیں جانتے اور نہ فصیح و بلیغ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، بعداس کے ارشاد فرمایا جس کسی کےدل میں دوستی حق نے جا پکڑی اسے چاہئے کہ دونوں جہاں کو ایک نگہ سے دیکھے، اگر نہ دیکھے تو عاشق صادق نہیں ہے، بعدا س کےبیان فرمایا کہ حضرت داؤد طائی کو دیکھا کہ صومعہ سے باہر آنکھیں بند کئے ہوئے نکلے، مجلس میں آن کر کھڑے ہوگئے، کسی درویش نے پوچھا یا حضرت ! اس میں کیا حکمت ہے، آپ نے جواب دیا آج پینتالیس برس ہوگئے میں نے ان آنکھوں کو پٹی سے باندھا ہے تا سوائے ذات باری کے اور کسی کو نہ دیکھیں، محبت سے بعید ہے کہ دعوے دوستی کا کرکے غیروں پر نگاہ ڈالتا پھروں، بعد اس کے فرمایا خواجہ ابو سعید ابوالخیر فرماتے تھے کہ جب خدائے تعالیٰ اپنے بندوں سے کسی کو شرف اپنی دوستی کا عطا فرماتا ہے اپنی محبت اس پر مستولی کر دیتا ہے، اس کے کامل ہونے پر حق تعالیٰ مرتبہ فردانیت کا عطا فرماتا ہے تاکہ ہمیشہ باقی رہے، بعد اس کے فرمایا جب عارف رجوع بحق ہوتا ہے اسے کچھ خبر نہیں ہوتی، اگر اس سے پوچھا جاوے کہاں تھا اور کیا چاہتا ہے وہ سوائے اس لفظ کے جواب نہ دے گا کہ ہمراہ خدائے عزوجل کے تھا، بعد اس کے ارشاد فرمایا، اگر تجھ سے پوچھیں افمن شرح اللہ صدرہ للاسلام کے کیا معنیٰ ہیں، جواب دینا چاہئے کہ یہ آیت مرتبہ عارفان کی ہے، جب عارف مقام وحدانیت و جلال ربوبیت میں پہنچتا ہے نابینا ہوجاتا ہے، وہ سوائے اس کے غیر کی طرف نظر نہیں کرتا، اس کے بعد ارشاد فرمایا میں ملک بخارا میں مسافر تھا، ایک بزرگ مشغول کو دیکھا وہ آنکھوں سے اندھے تھے، میں نے پوچھا اے جناب ! آپ کو نابینا ہوئے کتنا عرصہ ہوا؟ فرمایا اس وقت سے اندھا ہوں جب سے مجھے معرفت حاصل ہوئی اور نظر میری جلال عظمت باری تعالیٰ پر گرنے لگی، ایک روز میں بیٹھا تھا، کوئی غیر شخص میرے یہاں سے گذرا، میں نے اس پر نگاہ کی، معاً ہاتف نے آواز دی ہماری دوستی کا دعویٰ کرتے ہوئے غیروں پر نظر ڈالتے ہو، میں بہت شرمندہ ہوا اور عرض کیا یا الٰہی ! وہ آنکھ جو سوائے دوست کے غیر پر نظر ڈالے اس کا جاتا رہنا بہتر ہے، میں یہ بات کہنے بھی نہ پایا تھا کہ میری دونوں آنکھیں جاتی رہیں، بعدہ ارشاد فرمایا جب حضرت آدم پیدا ہوئے حکم الٰہی ہوا نماز ادا کرو، آپ نے نماز پڑھنی شروع کی، دل صحبت میں پیوست ہوا اور جان مقامات قرب میں جاکر ٹھہری اور سر واصل ہوا، یہی مصلحت پیدائش تھی، بعد اس کے ارشاد فرمایا کہ ایک بزرگ ہمیشہ دعا مانگتے تھے الٰہی بروز حشر مجھے نابینا اٹھائیو، لوگوں نے کہا حضرت یہ کیا دعا ہے؟ جواب دیا جو شخص دوست کا دیکھنا چاہے اسے لازم نہیں کہ غیر پر نگاہ ڈالے، بعدہ ذکر فرمایا درویشی کے یہ معنیٰ ہیں کہ بھوکا آوے اسے کھانا کھلاوے اور پیاسے کو پانی پلاوے اور جس کو کپڑا میسر نہ ہوا اس کو کپڑا دیوے، بہر حال محروم نہ چھوڑے، ہر ایک حاجت ضروری اس سے پوچھ لینا چاہئے، بعد اس کے ارشاد فرمایا ایک دفعہ میں اور خواجہ عثمان ہرونی باہم مسافرت میں تھے، راہ میں خواجہ بہاؤالدین اوشی بزرگ کامل صاحب دل سے ملاقات ہوئی، ان کا دستور تھا جو شخص ان کی خانقاہ میں آتا محروم نہ جاتا، سب کی حاجت ضرور پوری فرماتے تھے، اگر کوئی ننگا آتا آپ کپڑے اتار دیتے اور اسے پہناتے، جب ایسا ہوتا آپ کے کپڑے اتارنے سے پہلے فرشتے آپ کے واسطے لباس نفیس حاضر کرتے، ہم چند روز تک ان کی خدمت میں رہے، آپ نے بر وقت رخصت ہمیں نصیحت کی جو کچھ روپیہ پیسا تمہیں ملے کبھی اپنے پاس نہ رکھ، راہ خدا میں ایثار کرو کہ تم بھی دوستان الٰہی میں ہو جاؤگے اور فرمایا اے درویش ! جو کچھ کسی نے حاصل کیا ہے اسی سبب سے کیا ہے، بعد اس کے فرمایا ایک درویش تھے ان کی یہ رسم تھی جو نذرونیاز سے ان کو پہنچتا سب درویشوں کو نذر کردیتے تھے اور خود محنت و مزدوری سے اوقات بسر کرتے تھے، ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ جب وہ سب نذر و نیاز تقسیم کرچکے تھے، دو نفر درویش آئے اور آپ سے پانی طلب کیا، آپ فوراً گھر میں گئے اور دو روٹیاں معہ پانی لاکر ان بزرگوار کے رو برو پیش کیں، عرض کیا نوش فرمائیں ! وہ دونوں بہت بھوکے تھے، خوشی سے لے کر کھاگئے اور آپس میں صلاح کی کہ انہیں کچھ بدلہ دینا چاہئے، ایک نے ارادہ اشرفی دینے کا کیا، دوسرے نے منع کیا کہ کیوں اشرفی دے کر دنیا میں پھنساتے ہو، آخر دعا دی کہ الٰہی اسے بزرگ کامل الوقت کر، یہ دعا ان کی مستجاب ہوئی اور وہ بزرگ صاحب خیر ولی کامل ہوئے اور اس دعا کی برکت سے لنگر ان کا بہت بڑھا کہ ہزار من غلہ روز پکتا تھا، بعد اس کے فرمایا عاشق راہ محبت وہ ہے جو خود کو دونوں عالم سے علیحدہ کر ڈالے، بعدہ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ محبت کے چار معنیٰ ہیں۔

    اول ہمیشہ خدائے تعالیٰ کا ذکر کرنا اور اس کے ذکر میں خوش و خرم رہنا۔

    دوسرے ذکر خدا بدرجہ اتم کرنا۔

    تیسری وہ اشغال کرنے جو مانع محبت دنیاوی ہیں۔

    چہارم ہمیشہ روتے رہنا۔

    اس کے بعد چا منزلیں ہیں۔

    اول محبت۔

    دوم علمیت۔

    سوم حیا۔

    چہارم تعظیم۔

    اس کے بعد فرمایا محبت میں صادق وہ ہے کہ اپنے ماں، باپ، جورو، لڑکے، بھائی، بہن سے علیٰحدہ ہو اور سب سے بےزار ہو کر مشغول بحق ہو اور اس سے محبت رکھے جس سے بموجب حکم خدا محبت رکھنی چاہئے، بعدہ فرمایا حضرت حسن بصری سے پوچھا گیا کہ عارف کون ہے؟ آپ نے جواب دیا وہ شخص ہے جس نے دنیا سے منہ نہ پھیرا ہو اور اپنی تمام دھن دولت کو راہ خدا میں ایثار کیا ہو، بعد اس کے فرمایا خصلت عارفوں کی محبت میں اخلاص ہے، بعد اس کے فرمایا اچھی بات دنیا میں یہ ہے کہ درویشوں میں بیٹھیں اور نہایت صفائے دل سے گفتگو کریں اور بری بات اس کے برعکس ہے، بعدہ فرمایا حق دوستی کرنے کا یہ ہے کہ جن باتوں کے کرنے کو اس نے منع کیا ہے چھوڑے، بعدہ فرمایا عارف اس وقت کامل ہوتاہے جب اس کے درمیان سے ما و منی نکل جاتی ہے یا دوست ہی رہتا ہے یا وہی، بعدہ فرمایا صادق عارف وہ ہے جس کے پاس مال و اسباب کچھ نہ ہو، اس کے بعد فرمایا ایک دفعہ خضر سمنون محب محبت کی باتیں کر رہے تھے، ایک پرندہ ہوا سے اڑا، ان کے سر پر بیٹھ کر چونچیں مارنے لگا، بعدہ ان کے برابر بیٹھ کر چونچیں مارنے لگا اوریہاں تک چونچیں ماریں کہ خون اس کی چونچ سے روانہ ہوا، تھوڑی دیر میں زمین پر گر کر مرگیا، حضرت خواجہ یہ فرما کر تلاوت میں مشغول ہوئے، مجلس برخاست ہوئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے